
اپوزیشن اتحاد تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان نے 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک چلانے اور پارلیمنٹ کو نہ چلنے دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین تحریک، محمود خان اچکزئی نے اعلان کیا کہ ‘‘تحریک شروع ہو چکی ہے، نعرہ ہوگا: ایسے دستور کو ہم نہیں مانتے۔ چھٹی کے دن آئین پر حملہ کیا گیا، پاکستان کی بنیادوں پر ضرب لگائی گئی۔27ویں ترمیم کی منظوری کے اگلے دن ملک بھر میں یومِ سیاہ منایا جائے گا۔’’۔مصطفی نواز کھوکھر کا کہنا تھا کہ 27 ویں ترمیم مخصوص شخصیات کے مفادات کو سامنے رکھ کر کی گئی ہے، حالانکہ آئین کا شخصیات سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ اشرافیہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے آئین میں ترامیم کر رہی ہے۔سینیٹر راجہ ناصر عباس نے کہا کہ ’’پارلیمنٹ اور عدلیہ کو تباہ کر دیا گیا ہے، یہ ملک کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ ہم اس ترمیم کا راستہ روکنے کے لیے ہر حد تک جائیں گے۔‘‘
پاکستان کی سیاسی تاریخ تحریکوں سے بھری پڑی ہے۔ جمہوری ادوار میں اکثر ایسی تحریکیں چلائی گئیں جن سے جمہوریت خود کمزور ہوئی۔ اگر کسی کو آزادی اظہار کا حق ہے تو جمہوریت کی بقا بھی اسی وقت ممکن ہے جب فیصلے منتخب ایوانوں کے اندر ہوں، نہ کہ سڑکوں پر افراتفری کے ذریعے۔کوئی جماعت کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، سب کچھ اس کی منشا کے مطابق نہیں ہو سکتا۔ یہی جمہوریت کا حسن ہے کہ فیصلے اکثریت کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اپوزیشن کی نظر میں مجوزہ 27ویں ترمیم میں اگر خامیاں ہیں تو ان پر بات پارلیمنٹ کے اندر ہونی چاہیے، نہ کہ سڑکوں پر۔ اپوزیشن کا یہ رویہ رہا ہے کہ وہ اکثر مسائل کا حل ایوان میں تلاش کرنے کے بجائے سڑکوں پر احتجاج کے ذریعے تلاش کرتی ہے، جس سے نہ صرف نظام بلکہ خود اپوزیشن کی ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے۔ اگر اپوزیشن سمجھتی ہے کہ یہ ترمیم ملک و قوم کے مفاد میں نہیں تو اسے احتجاج کے بجائے مذاکرات کے ذریعے اپنا موقف پیش کرنا چاہیے۔ قومی مفادات کے معاملات پر سیاست کے بجائے مکالمے کا راستہ اپنانا ہی بہتر ہے۔ابھی تو ترمیم پر ایوان بالا اور ایوان زیریں میں بحث کا اغاز ہی نہیں ہوا۔وہاں پہ اپنا نکتہ نظر بیان کیا جائے۔ ملک اس وقت داخلی و خارجی چیلنجز سے گزر رہا ہے۔ ایسی صورت میں انتشار اور افراتفری کی سیاست ملک کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ اگر اپوزیشن نے یہ طرزِ عمل برقرار رکھا تو امن و امان کی صورتحال خراب ہوگی۔اس صورت میں قانون بھی حرکت میں آئے گا، جو کسی کے لیے بہتر نہیں ہوگا۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جب خود اپوزیشن پارلیمنٹ کا حصہ ہے تو اسی ادارے کو نہ چلنے دینے کا اعلان خود اپنے وجود سے انکار کے مترادف ہے۔ قومی معاملات کے حل کے لیے تحمل، مکالمہ اور جمہوری طرزِ عمل ہی واحد راستہ ہے۔
واپس کریں