*کنٹرولڈ مزاحمت کا کھیل: ظہران ممدانی کی کامیابی اور صہیونی ڈارک سائیکولوجی کی حکمتِ عملی

امریکہ میں Zohran Mamdani کا نیویارک کا پہلا مسلمان میئر بننا بظاہر ایک تاریخی اور جمہوری کامیابی معلوم ہوتا ہے، لیکن اگر اسے عالمی سیاسی حقیقت اور صہیونی استعماری نفسیات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ محض ایک عوامی فتح نہیں بلکہ ایک گہری نفسیاتی اور سماجی حکمتِ عملی کا حصہ نظر آتا ہے۔ امریکہ کی سیاسی ساخت — اس کے انتخابی ادارے، میڈیا نیٹ ورکس، سرمایہ دارانہ عطیات کے ذرائع اور فکری تھنک ٹینکس — سب کسی نہ کسی درجے میں ان قوتوں کے زیرِ اثر ہیں جو خود کو “آزادی و جمہوریت” کے محافظ کے طور پر پیش کرتی ہیں مگر درحقیقت سرمایہ، طاقت، اور عالمی نیٹ ورکس کے ذریعے عوامی شعور کو کنٹرول کرتی ہیں۔ اس پس منظر میں ممدانی کی جیت کو “ڈارک سائیکولوجی” یعنی طاقت کے نفسیاتی کھیل کی ایک مثال کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
ڈارک سائیکولوجی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ طاقتور نظام براہِ راست عوام کو دباتے نہیں بلکہ ان کے اندر ایک مصنوعی آزادی اور خودمختاری کا احساس پیدا کرتے ہیں، تاکہ وہ اس گمان میں رہیں کہ وہ خود فیصلے کر رہے ہیں جبکہ حقیقت میں ان کے شعور کی تشکیل اسی نظام کے طے کردہ فریم کے اندر ہو رہی ہوتی ہے۔ صہیونی لابی، جس نے عشروں سے امریکی سیاست، معیشت، میڈیا اور قانون سازی پر اثر رکھا ہے، اسی اصول پر کارفرما ہے۔ وہ مزاحمت یا اختلاف کو مٹانے کی بجائے اسے کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ بعض افراد یا تحریکوں کو آگے لاتی ہے جو بظاہر اس کے خلاف نظر آتی ہیں مگر دراصل ان کے وجود سے نظام کے اندر ایک “نفسیاتی ریلیف والو” کھلتا ہے۔ عوام کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ نظام کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں جبکہ ان کی ساری توانائی اسی نظام کے اندر ضم کر دی جاتی ہے۔
ممدانی کا انتخاب اسی “کنٹرولڈ اپوزیشن” کے اصول پر ایک نفسیاتی تجربہ دکھائی دیتا ہے۔ ایک مسلمان، جنوبی ایشیائی نژاد، فلسطینیوں کا حمایتی شخص اگر نیویارک جیسی عالمی طاقت کے دل میں منتخب ہوتا ہے، تو یہ محض اتفاق نہیں بلکہ ایک علامتی نفسیاتی اقدام ہے۔ یہ ایک ایسا انتخاب ہے جو عوامی شعور کو یہ یقین دلانے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے کہ اب نظام بدل رہا ہے، جبکہ درحقیقت وہی پرانے طاقت کے ڈھانچے اپنی جگہ برقرار ہیں۔ اس حکمتِ عملی کو “Illusion of Change” کہا جا سکتا ہے، یعنی تبدیلی کا تاثر پیدا کرنا جبکہ طاقت کے مراکز بدستور قائم رہیں۔
یہ انتخاب ایسے وقت میں عمل میں آیا جب دنیا بھر میں فلسطیـن اور مزاحمتی بلاک نے اسرائیل اور اس کے عالمی حمایتی نیٹ ورکس پر اخلاقی دباؤ بڑھا دیا ہے۔ عوامی ہمدردی فلسطیــنیوں کی طرف مائل ہو رہی ہے اور مغربی استعمار کی پالیسیوں پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ اس صورتحال میں صہیونی ذہنیت کے لیے براہِ راست اسرائیل نوازی کو برقرار رکھنا ممکن نہیں رہا۔ لہٰذا اس نے ایک نئی حکمتِ عملی اختیار کی ہے: ایسے چہرے آگے لائے جائیں جو ظاہراً نظامِ ظلم کے مخالف ہوں، مگر عملی طور پر اسی نظام کے اندر سے اس کے تسلسل کو “اخلاقی جواز” فراہم کریں۔ ممدانی کا انتخاب دراصل اسی حکمتِ عملی کا نفسیاتی چہرہ ہے۔ وہ اس “کنٹرولڈ ایمپیتھی” کا مظہر ہیں جس کے ذریعے عوام کو یقین دلایا جاتا ہے کہ ان کی آواز سنی جا رہی ہے، تاکہ حقیقی مزاحمت کا جذبہ ایک جذباتی تسکین میں بدل جائے۔
صہیونی ذہنیت انسانی نفسیات کی باریکیوں کو بخوبی جانتی ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ نوجوان نسل مظلومیت، مساوات اور انصاف کے بیانیے سے متاثر ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر ان کے سامنے ایک ایسا مسلمان رہنما لایا جائے جو انہی اصولوں کی بات کرے مگر ان کی انقلابی قوت کو ریاستی نظام میں جذب کر دے، تو مزاحمت کا بیج خود بخود کمزور ہو جاتا ہے۔ یہ حکمتِ عملی “Neutralization by Integration” کہلاتی ہے — یعنی نظریے کو ختم کرنے کے بجائے اسے اداروں کے اندر ضم کر دینا تاکہ وہ اپنی انقلابی قوت کھو دے۔ ممدانی کے ذریعے اگر فلسطین نواز اور نظام مخالف جذبات کو ریاستی فریم میں سمو دیا جائے، تو عوامی شعور کے تیز دھار کنارے ماند پڑ جاتے ہیں اور تبدیلی کی اصل روح نظام کی دیواروں میں تحلیل ہو جاتی ہے۔
یہ عمل دراصل صہیونی طاقتوں کی ایک نفسیاتی سرمایہ کاری ہے۔ وہ جانتی ہیں کہ عالمی سطح پر ان کے خلاف اخلاقی فضا بن رہی ہے، لہٰذا اب وہ “مظلوموں کے نمائندوں” کو خود اپنے نظام میں شریک کر کے ایک نئی اخلاقی چادر اوڑھنا چاہتی ہیں۔ یہ امریکہ کے “Moral Rehabilitation Project” کا حصہ ہے — یعنی دنیا کو دکھانا کہ امریکہ انصاف پسند اور متنوع ہے، حالانکہ اس کے عالمی فیصلے اب بھی انہی قدیم امپیریل نیٹ ورکس کے ہاتھوں میں ہیں۔
یوں ممدانی کا انتخاب اگرچہ بظاہر ایک جمہوری اور انسانی حقوق کی جیت معلوم ہوتا ہے، مگر درحقیقت یہ ایک گہرا نفسیاتی کھیل ہے۔ یہ نظام اپنی بقا کے لیے مزاحمت کے نعروں کو خود اپنے دائرے میں جذب کر کے انہیں بے ضرر بناتا جا رہا ہے۔ ممدانی اس کھیل کے اندر ایک “تسکینی علامت” کے طور پر ابھرے ہیں — ایک ایسا چہرہ جو عوام کو امید دیتا ہے مگر طاقت کے ڈھانچوں کو کوئی خطرہ نہیں پہنچاتا۔ یہی استعمار کی سب سے بڑی چال ہے: انقلاب کے بیج کو خود اپنے باغ میں اگا دینا، تاکہ بغاوت کی خوشبو تو رہے، مگر اس میں آگ نہ ہو۔
واپس کریں