مئیر نیویارک کے لیئے مسلم ڈیموکریٹ زہران ممدانی کا بے مثال انتخاب

امریکہ میں 34 سالہ ڈیموکریٹک سوشلسٹ زہران ممدانی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سخت مخالفت کے باوجود نیویارک سٹی کے پہلے مسلمان اور کم عمر امیدوار کی حیثیت سے مئیر کا انتخاب بھاری مارجن کے ساتھ جیت لیا۔ ممدانی نے 486,741 ووٹ حاصل کیئے جبکہ ان کے مد مقابل آزاد امیدوار انیڈریو کومو کو 396,177 ووٹ ملے اور ری پبلکن امیدوار کرٹس سلوا صرف 79,281 ووٹ حاصل کرپائے۔ آزاد امیدوار اینڈریو نیویارک کے سابق گورنر تھے اور ٹرمپ سمیت تمام بااثر امریکی حلقے ان کی پشت پر کھڑے تھے۔ اس کے باوجود شکست ان کا مقدر بنی۔ امریکی اور عالمی میڈیا کے مطابق زہران ممدانی نے نیویارک کا مئیر منتخب ہو کر اس انتخاب میں نئی تاریخ رقم کی ہے جس میں 2001ء کے بعد سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اس انتخاب میں 17 لاکھ سے زیادہ ووٹرز نے حقِ رائے دہی استعمال کیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکہ کی معروف کاروباری شخصیت ایلون مسک کی جانب سے زہران ممدانی کو شکست دلانے کے لیئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا مگر انہیں خود ہی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ممدانی کی جیت میں تارکین وطن مسلمانوں اور قدامت پسند یہودیوں کا نمایاں کردار ہے۔ ممدانی نے اپنے انتخاب کے بعد اپنے پہلے عوامی خطاب میں اسی تناظر میں باور کرایا کہ نیویارک تارکینِ وطن کا شہر ہے اور رہے گا۔ انہوں نے امریکی صدر ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ٹی وی کی آواز بلند کر لیں اور انہیں سن لیں۔ مجھے پتہ ہے کہ وہ مجھے ٹی وی پر دیکھ رہے ہیں۔ میں نیویارک کے ہر مزدور کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ نیویارک میں اسلاموفوبیا کی کوئی گنجائش نہیں۔ عوام نے ثابت کر دیا کہ پاور ان کے ہاتھ میں ہے۔ ہم نے نیویارک میں موروثی سیاست کا خاتمہ کر دیا ہے۔ ممدانی کے بقول ہم لیڈر شپ کے نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ممدانی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اسرائیلی مظالم کے خلاف فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو جنگی مجرم اور نسل کْشی کے ذمہ دار ہیں، اگر وہ یہاں آئے تو میں انہیں گرفتار کرنے کا حکم دوں گا۔ اسی طرح ممدانی نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ وہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے نیویارک آنے پر ان سے ملنے نہیں جائیں گے۔ نوائے وقت کی رپورٹ کے مطابق امیر طبقہ ممدانی کے مئیر بننے کے خلاف تھا۔ 28 امریکی ارب پتیوں نے ان کے خلاف زور لگایا اور انہیں شکست دلانے کے لیئے دو کروڑ ڈالر خرچ کر ڈالے جبکہ صرف دو ارب پتیوں نے ممدانی کی حمایت کی۔ امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ ممدانی کی اہلیہ راما دوامی کا بھی اپنے شوہر کی کامیابی میں اہم کردار ہے جس نے الیکشن مہم کی شناخت بنائی۔ انہوں نے ممدانی کے لیئے انتخابی پوسٹر اورلوگو خود ڈیزائن کیئے۔ کامیابی کے بعد ممدانی نے اپنی اہلیہ کو ایک باکمال آرٹسٹ کہہ کر ان کا شکریہ ادا کیا۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مئیر نیویارک کے انتخاب میں زہران ممدانی کی کامیابی کی وجہ امریکہ میں جاری شٹ ڈاؤن کو قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ شٹ ڈاؤن کے باعث ائرلائنز اور سٹاک مارکیٹ متاثر ہو رہی ہے۔ ان کے بقول وہ خود تو بیلٹ پیپر پر نہیں تھے اس لیے ممدانی کی کامیابی ان کی شکست کیسے ہوگئی۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ہمیں ووٹرز رجسٹریشن فہرستوں سے متعلق قانون منظور کرنا چاہیئے۔ ڈاک کے ذریعے ووٹ دینا بدعنوانی کی اجازت دینے کے مترادف ہے۔ اگرچہ ٹرمپ کی جانب سے یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ ممدانی کے منتخب ہونے کی صورت میں وہ انہیں ترقیاتی فنڈز جاری نہیں کریں گے تاہم ممدانی کے مئیر منتخب ہونے کے بعد ٹرمپ نے پینترا بدلتے ہوئے ان کے ساتھ تعاون کا عندیہ دیا ہے اور ممدانی سے کہا ہے کہ وہ بھی واشنگٹن کی جانب تعاون کا ہاتھ بڑھائیں بصورت دیگر ان کے لیئے مشکلات پیدا ہوں گی۔
34 سالہ زہران ممدانی یوگنڈا میں پیدا ہوئے جن کا پس منظر مسلم اور ہندو سیکولر روایات کے ساتھ جْڑا ہوا ہے۔ ان کے والد محمود ممدانی مشہور سکالر اور کتاب "گْڈ مسلم، بیڈ مسلم" کے مصنف ہیں جبکہ ان کی والدہ میرا نائر معروف فلمساز ہیں جنہوں نے مون سون ویڈنگ اور دی نیمسپک جیسی عالمی سطح کی معروف فلمیں بنائیں۔ زہران ممدانی فلسطین کی آزادی کے حامی اور نریندر مودی کے سخت ناقد ہیں۔ زہران ممدانی میں اپنے والد کی سیاسی بصیرت جھلکتی ہے جنہوں نے اپنی کتاب میں مسلمانوں کے بارے میں مغرب کی اس سوچ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ اچھے مسلمان وہ ہیں جو مغربی طرزِ فکر اپنائیں اور برے مسلمان وہ ہیں جو اپنی مذہبی شناخت پر قائم رہیں۔ زہران ممدانی بھی اپنی انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کے بارے میں اہلِ مغرب کی اس متعصبانہ سوچ کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ اس تناظر میں ان کی کامیابی کو امریکہ میں ایک سیاسی انقلاب سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کو ممدانی کے فلسطین کے ساتھ کھڑے ہونے اور اسرائیلی بربریت کو سخت تنقید کا نشانہ بنانے کے عمل نے ہی انہیں جیتنے نہ دینے کے عزم کے اظہار پر مجبور کیا تھا جس سے عالمی اور علاقائی امن کے لیئے ٹرمپ کے کردار ادا کرنے کے دعوے بھی بے نقاب ہوئے۔ جبکہ اسلاموفوبیا کے اسیر امریکی اشرافیاؤں کے سارے کرتا دھرتا ممدانی کی مخالفت میں ایک پلیٹ فارم پر آگئے اور اس مقصد کے لیئے ایلون مسک نے ٹرمپ کے ساتھ جاری اپنے اختلافات بھی نظر انداز کر دیئے تو اس سے ہی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلاموفوبیا کی اسیر الحادی قوتوں کو مسلم دنیا کو ختم کرنے والے اپنے ایجنڈے کے خلاف کسی مسلم یا غیر مسلم کا کسی بھی سطح پر میدان میں اترنا کتنا ناگوار گذرتا ہے۔ جبکہ مئیر نیویارک کے لیئے زہران ممدانی کو کامیابی سے سرفراز کرنا اس حقیقت کو کھول کر بیان کر رہا ہے کہ امریکی معاشرے میں اب مسلم دنیا کے خلاف تعصبات کی سوچ مسترد ہو رہی ہے۔ ٹرمپ درحقیقت اسی سوچ کے ترجمان ہیں جنہوں نے اپنے پہلے دور صدارت میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا اور قبلہ اول کو ملیامیٹ کرنے کے لیئے اسرائیل کا پوری قوت سے ساتھ دیا۔ اسی طرح ٹرمپ اپنے موجودہ عہدِ صدارت میں غزہ جنگ میں اسرائیل کی کھلم کھلا مدد اور سہولت کاری کرتے رہے ہیں اور انہوں نے اسرائیلی فوج کو ہر قسم کے اسلحہ کی کمک فراہم کی ہے۔ اسی طرح ٹرمپ کے ایما پر ہی اسرائیل نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کیا جبکہ مشرقِ وسطیٰ میں مسلم بادشاہتوں کو در آنے والی "عرب بہار" میں بھی امریکی کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ مسلم دنیا کے خلاف جنگی جنون والی اس سوچ کو امریکی عوام کی جانب سے مسترد کیا جانا صرف امریکہ نہیں پورے مغربی معاشرے میں ایک نئے انقلاب کی نوید ہے اور زہران ممدانی کی امریکی بڑی طاقتوں کے مقابل کامیابی اس کی واضح دلیل ہے۔
بشکریہ نوائے وقت
واپس کریں