پراپرٹی مقدمات نمٹانے کا2025 Property Ordinance پورے ملک میں کیوں نہیں؟

انتقال کر جانے کے بعد اگر فوری طور پر بینک اکاؤنٹ، شناختی کارڈ یا موبائل سم بلاک ہو سکتی ہے تو نادرہ ریکارڈ کے مطابق وراثتی جائیداد کو وارثان میں منتقل یا تقسیم کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ وارثان کو اپنا جائز وراثتی حق لینے کے لیئے سالوں سال مختلف عدالتوں کے چکر لگوانا کیوں ضروری سمجھا جاتا ہے؟اس حوالے سے آئینی ترمیم یا قانون سازی کیوں نہیں؟
ایک اندازے کے مطابق ہماری عدالتوں میں تقریبا 2.26 ملین سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں ۔ اس میں سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور ضلعی عدالتوں کے تمام مقدمات شامل ہیں۔سول مقدمات (جن میں جائیداد کی تقسیم شامل ہے) ان کا بڑا حصہ ہیں۔ہائی کورٹس میں سول مقدمات 81 فیصد ہیں (تقریباً 3 لاکھ سے زائد) جبکہ ضلعی عدالتوں میں سول مقدمات 64 فیصد ہیں (تقریباً 1.4 ملین سے زائد)۔ 80فیصد سے زائد جائیداد کے تنازعات عدالتوں میں نسلوں تک چلتے ہیں۔
کراچی کی ضلعی عدالتوں میں تقریبا 21,000 سے زائد جائیداد سے متعلق سول مقدمات زیر التوا ہیں جبکہ پنجاب کی عدالتوں میں (لاہور ہائی کورٹ اور ضلعی سطح پر) تقریبا 1.19 ملین سے زائد سول مقدمات زیر التوا ہیں، جن میں بڑا حصہ جائیداد اور وراثت کے تنازعات کا ہے۔گو کہ فیصلوں میں تاخیر کا بڑا سبب عدالتی بیک لاگ، نوآبادیاتی قوانین (جیسے Partition Act 1893) اور عدالتی وسائل کی کمی ہے لیکن انصاف کے منتظر وہ لاکھوں متاثرین کہاں جا کر روئیں جو سال ہا سال سے مختلف عد التوں کا طواف کر رہے ہیں۔
پنجاب حکومت کی جانب سے اکتوبر 2025 میں نافذ ہونے والا Property Ordinance مقدمات کو 90 دن میں نمٹانے کی امید تو دلاتا ہے جس سے جائیداد کے تنازعات کم ہو گے جو بہت خوش آئیند ہے لیکن ایسا پراپرٹی آ رڈینس اسلام آباد اور ملک کے دیگر صوبو ں میں کیوں نہیں نافذ کیا جاتا؟
واپس کریں