دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
نفرت کی نصابی واردات کی حقیقت اب آہستہ آہستہ سامنے آ رہی ہے
No image جنید احمد شاہ ایدووکیٹ۔ انگریزوں کی باقیات پر مشتمل نو آبادیاتی نصاب ِتعلیم اور نظامِ تعلیم نے ہماری نسلوں کی ایسے ذہن سازی کی ہے کہ جیسے ہم نے 14 اگست 1947 کو ہندؤوں اور سکھوں سے آزادی حاصل کی ہے حالانکہ ہندوؤں ، سکھوں اور دیگر درجنوں مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ ہندستان میں صدیوں تک ہم نہ صرف اکھٹے رہتے رہے بلکہ 800 سال تک پُرامن سیاسی نظام ، عادلانہ معاشی نظام اور رواداری پر مشتمل معاشرتی نظام کے ذریعے حُکمرانی بھی کرتے رہے۔۔
جنکے ساتھ صدیوں پر مشتمل وطنی اشتراکِ عمل کی روشن تاریخ ہے ، وہ دشمن بنا دیے گئے اور جو انگریز سات سمندر پار سے آ کر ، ہمارے خطے کو لُوٹ کر ، تقسیم پیدا کر کے اور باہمی نفرتیں ڈال کر ایک دوسرے کا دشمن بنا گیا ، وہ آج تک ہمارے اوپر مسلط کالے انگریزوں کے دوست بلکہ آقا بن گئے۔۔۔
یہی درس باقاعدہ نصاب کی شکل میں پڑھایا گیا جس کا نتیجہ یہ نِکلا کہ ہم انگریزوں سے مرعوب ہو گئے اور ہندو ہمارے دشمن بن گئے۔۔۔
اِس پوری فکری و نصابی واردات کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ صحیح دوست و دشمن کا تعین کیا جا سکے وگرنہ یہ نفرتیں ہماری نسلیں بھی پالتی رہیں گی اور یہاں کی اقوام کو آپس میں لڑوانے والے انگریز دونوں ممالک کو اسلحہ بیچ کر اور یہاں کے قومی وسائل کو لُوٹ کر اپنے مفادات حاصل کرتے رہیں گے۔۔۔
دونوں طرف کا ایک محدود فرقہ پرست طبقہ چاہے وہ ہندو فرقہ پرستی کا نعرہ لگائے یا مُسلم فرقہ پرستی کا ، یہ دونوں قابل مذمت ہیں۔۔ دونوں ممالک میں بسنے والے دو ارب انسانوں کے یہ نمائندہ نہیں ہیں بلکہ انگریز کے جانشین اور اُنکی پالیسی " تقسیم کرو اور حکومت کرو" کے پیروکار ہیں۔۔۔
ایک عام ہندستانی اور ایک عام پاکستانی نہ لڑنا چاہتا ہے اور نہ مرنا چاہتا ہے۔ وہ بس یہ چاہتا ہے کہ اُنکو باعزت روزگار اور صحت و تعلیم کا بہترین نظام مِلے ، مہنگائی ، غربت اور بیروزگاری کا خاتمہ ہو ، سفری سہولیات میں آسانی میسر آئے ، تجارت و سیاحت کا راستہ کھلے اور بحثیت مجموعی یہ خطہ مضبوط ایشیاء کی بنیاد بنے۔۔۔
نفرت کی نصابی واردات کی حقیقت اب آہستہ آہستہ سامنے آ رہی ہے ، وقت کے ساتھ ساتھ مزید حقائق بھی منظر عام پر آ جائیں گے۔۔۔
واپس کریں