دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مذہبی زومبیز سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا۔طاہر سواتی
No image ایران عرب دنیا کے تیل سے مالا مال ممالک جیسے قطر، متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت اور عمان سے زیادہ تیل پیدا کرتا ہے۔ ایرانی عوام عربوں کی نسبت زیادہ محنتی اور جفاکش ہیں اور کاروبار و زندگی خود چلانے کا فن جانتے ہیں۔
گزشتہ فٹ بال ورلڈ کپ کی مثال لیں تو اس وقت قطر کے اپنے شہری کل آبادی کے ایک تہائی سے بھی کم تھے ۔ یعنی تیس لاکھ کی آبادی میں سے صرف آٹھ لاکھ قطری تھے، جبکہ باقی 22 لاکھ کے قریب بیرونِ دنیا سے آئے ہوئے کام کرنے والے تھے۔
یہ وہ لوگ تھے جو سرمایہ لانے کی بجائے زرمبادلہ اپنے ممالک کو بھیج رہے تھے۔ اس کے مقابلے میں ایرانی عوام خود کام کرتے ہیں اور باہر کے لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں۔
قطر کو چھوڑ کر جہاں تیل کے ساتھ گیس بھی پیدا ہوتی ہے، باقی عرب دنیا کا انحصار زیادہ تر صرف تیل کی پیداوار پر ہے اور وہاں زراعت نہ ہونے کے برابر ہے۔ جبکہ ایران میں تیل اور گیس کے علاوہ دنیا کے بہترین میوہ جات اور پھل پیدا ہوتے ہیں۔ ایران پستہ، انار، سیب، ٹماٹر، کھجور اور زعفران کی پیداوار میں دنیا میں ایک بڑا مقام رکھتا ہے۔
اس کے باوجود عرب ممالک نہ صرف اپنے عوام کو خوشحال زندگی دے رہے ہیں بلکہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا اور فلپائن سمیت دنیا بھر کے لاکھوں لوگ وہاں روزگار کے حصول میں مصروف ہیں۔ مثال کے طور پر سعودی عرب میں 26 لاکھ پاکستانی برسرِ روزگار ہیں۔ تیل سے مالا مال خلیج تعاون کونسل کے چھ ممالک میں مجموعی طور پر 46 لاکھ سے زائد پاکستانی رزقِ حلال کما رہے ہیں۔
دوسری جانب ایرانی عوام اتنے وسائل کے باوجود مسلسل جبر اور معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ اس وقت ایران میں مہنگائی کی شرح 45 فیصد کے قریب ہے۔ ایک امریکی ڈالر دس لاکھ ایرانی ریال کے برابر ہے۔ کرنسی کی اس بے قدری کی وجہ سے ایران نے اپنی کرنسی سے چار صفر ہٹا کر نئے نوٹ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے، یعنی دس ہزار کو اب ایک ریال اور دس لاکھ کے نوٹ کو سو ریال شمار کیا جائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صفر ہٹانے سے مہنگائی خود بخود کم ہو جائے گی؟
ایرانی عوام کے ان مسائل کی بنیادی وجہ برسرِ اقتدار ملا رجیم ہے، جو شروع سے دنیا کے ساتھ چلنے اور عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کی بجائے اپنی مخصوص مذہبی سوچ کو ایران اور پھر پوری دنیا میں نافذ کرنے میں سرگرم ہے۔ دنیا تو فتح نہیں ہو رہی، البتہ عوام رُل رہی ہے۔
اسی طرز کی تنگ نظر سوچ نے کابل میں اپنی ہیبت قائم کر رکھی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ طویل خانہ جنگی کے بعد وہ اپنے داخلی مسائل حل کرتے، لیکن انہوں نے پاکستان اور وسطی ایشیا میں اپنا انقلاب برآمد کرنے کے لیے کمر کس لی ہے۔
بی بی سی اور دیگر عالمی میڈیا کی خبریں سن کر دکھ ہوتا ہے کہ کس طرح غریب عوام، خاص طور پر کسان، مشکلات کا شکار ہیں۔ سرحدی بندش کی وجہ سے پھل اور سبزیاں خریدنے والا کوئی نہیں۔ بہترین انار کی فی کل قیمت 45 افغانی ہے، لیکن خریدار نہیں۔ اگر صورت حال یوں ہی برقرار رہی تو یہ مسائل مزید گمبھیر ہو سکتے ہیں۔ عام لوگ خوف کی وجہ سے حکمرانوں کے خلاف زبان کھولنے سے گھبراتے ہیں، لیکن ہر شخص کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ حکومت ان کے مسائل کم کرے اور معیشت کو بہتر بنانے کے لیے کردار ادا کرے۔
جبکہ موجودہ حکومت کی ترجیحات ملاحظہ فرمائیں:
ایک کمانڈر بڑے فوجی اجتماع کے سامنے ایک ترانہ گا رہا ہے جس میں لاہور کو فتح کرنے اور اسلام آباد کو تہہ و بالا کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
خواجہ آصف کے بیانات پر سیخ پا ہونے والے دانشور اس وقت نیپال کے جنگالات میں محو آرام ہیں۔
ایک ٹی وی پروگرام میں ایک افغان دانشور یہ فرما رہے تھے کہ "چینی بھوکے لوگ ہیں۔" حقیقت یہ ہے کہ آج تک ایک بھی چینی نے کسی افغان کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا ہو گا، جبکہ افغانیوں نے دنیا کا کوئی ملک چھوڑا نہیںٗ۔ اس کے باوجود چینی "بھوکے" اور یہ "خود دار" ہیں۔ اپنے محسنوں کے ساتھ ان کا یہ پرانا وطیرہ ہے ۔ یہ وہ سطحی سوچ ہے جو آج کابل میں برسرِ اقتدار ہے۔
اگر مسلمانوں نے آج باوقار زندگی گزارنی ہے اور دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو ان مذہبی زومبیز سے چھٹکارا حاصل کرنا ہو گا، ورنہ تمہاری داستان تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔
واپس کریں