
غاصب اسرائیلی فوج کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ کے مختلف علاقوں پر حملوں میں 8 فلسطینی شہید ہوگئے۔ صہیونی فوج نے مغربی کنارے میں 40 فلسطینی گرفتار کر لیے اور دو فلسطینی گھروں کو مسمار کر دیا جبکہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے ایک اور یرغمالی کی لاش اسرائیل کے حوالے کردی۔ عرب میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فورسز کی غزہ جنگ بندی معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ غزہ کے مختلف علاقوں میں غاصب صہیونی فوج نے فائرنگ اور گولہ باری کی۔ اسرائیلی فوج کے سربراہ نے جنگ ختم نہ کرنے کا اعلان کر دیا۔ غاصب فوج کے سربراہ نے کہا ہے کہ غزہ میں حماس کے خلاف جنگ اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک آخری مغوی کی لاش واپس نہیں لائی جاتی۔ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے فوج کو غزہ میں فوری حملے کرنے کا حکم دے دیا۔ عرب میڈیا کے مطابق نیتن یاہو نے حماس پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے بہانہ بنایا کہ ہمارے فوجیوں پر فائرنگ کی گئی۔ دوسری جانب، حماس نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ اسرائیل نے غزہ امن معاہدے کی خلاف وزری کی۔ جنگ بندی کی اسرائیلی خلاف ورزیوں پر یرغمالیوں کی نعشوں کی حوالگی منسوخ کر دیں گے۔ بین الاقوامی سطح پر اسرائیلی خلاف ورزیوں پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی جا رہی ہے۔ عالمی ضامن اور انسانی حقوق کے علمبردار ادارے صرف بیانات تک محدود ہیں۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور امریکا جیسے ممالک اسرائیل کی ہر زیادتی کو دفاع کے نام پر جائز قرار دیتے ہیں۔ یہ دوہرا معیار نہ صرف مشرقِ وسطیٰ کے امن کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ عالمی انصاف کے نظام پر بھی سوالیہ نشان لگا رہا ہے۔ اگر کسی عرب یا مسلم ملک کی جانب سے ایسی خلاف ورزی ہوتی تو فوری پابندیاں عائد کی جاتیں اور سخت مذمت کی جاتی مگر اسرائیل کے لیے بین الاقوامی قوانین ہمیشہ نرم ہو جاتے ہیں۔ یہ صورتحال اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ فلسطین کا مسئلہ محض زمینی تنازعہ نہیں بلکہ انسانی ضمیر کا امتحان بن چکا ہے۔ جب معصوم شہریوں کے گھروں پر بم برسائے جاتے ہیں، جب اسپتال اور اسکول نشانہ بنتے ہیں، جب معاہدے کاغذ کے ٹکڑے بن جاتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امن کے علمبردار کہاں ہیں؟ اسرائیل کو اگر واقعی کوئی لگام ڈال سکتا ہے تو وہ صرف عالمی ضامن قوتیں ہیں مگر افسوس کہ ان کی ترجیحات انسانی جان سے زیادہ سیاسی مفادات کی ہیں۔
واپس کریں