
قطر اس وقت دنیا کے دس امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ 2010ء سے 2014ء تک یہ دنیا کا سب سے امیر ملک رہا۔ یہ ایل این جی گیس کا دوسرا بڑا برآمد کنندہ ہے۔ افغانستان ہو یا فلسطین، قطر مسلم دنیا کے بڑے مسائل میں ثالثی کا اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔
کل، امریکی صدر آسیان اجلاس میں شرکت کے لیے ملائیشیا جا رہے تھے کہ ان کا طیارہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایندھن بھرنے کے لیے رکا۔ اس دوران قطر کے امیر، شیخ تمیم بن حمد الثانی، نے امریکی صدر کے طیارے ایئرفورس ون پر ان سے ملاقات کی۔ اس موقع پر امیرِ قطر نے ٹرمپ سے کہا: "جیسے ہی مجھے اطلاع ملی کہ آپ ایندھن بھرانے کے لیے دوحہ میں رکیں گے، میں نے کہا کہ خود حاضر ہو کر آپ کا استقبال کروں گا۔"
ٹرمپ نے جواب دیا: "آپ اپنے ملک کے ایک مقبول اور محترم رہنما ہیں۔ ہم نے مشرقِ وسطیٰ میں امن کے لیے مل کر بہت کام کیا ہے۔ مجھے فخر ہے کہ آپ میرے ساتھ ہیں۔ قطر ریاستہائے متحدہ کا ایک عظیم اتحادی ہے۔"
ان تعریفی کلمات پر کسی نے ٹرمپ یا امیرِ قطر کو کے طعنے نہیں دیے۔
مصر میں شہباز شریف کی تقریر پر بی بی سی کے وسعت اللہ خان نے ایک طنزیہ کالمُ لکھا ، بی بی سی والے اس کے کسی طنزیہ جملے کو ہیڈ لائن بنا کر بار بار اس کو شئیر کرتے رہے ، یہ ہے وہ وائرس جو غفورے اور باجوے نے بین الاقومی میڈیا تک پھیلایا ہوا ہے ۔
اگر ٹرمپ ہماری قیادت کی تعریف کرے تو ہمیں اعتراض ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے، اور اگر شہباز شریف ٹرمپ کے لیے تعریفی کلمات ادا کریں تو وہ غلامی اور چاپلوسی کہلاتی ہے۔
چلیے، اگر اس قسم کے تعلقات ہمیں منظور نہیں،
ذرا سوچیں، اگر معاملہ الٹا ہوتا—
یعنی ٹرمپ ہمیں دھمکیاں دیتا اور مودی کی تعریفیں کرتا—تو کیا ہم مطمئن ہوتے؟
نہیں! بلکہ ہم یہی کہتے کہ "دیکھ لیجیے، پاکستان کی عزت کہاں پہنچ گئی، اصل لیڈر جیل میں ہے، اسی لیے دنیا ہمیں دھمکیاں دے رہی ہے۔"
جبکہ "ایبسولیوٹلی ناٹ" اور "امریکی غلامی نامنظور" کے جعلی نعرے لگانے والے اس بہروپیا لیڈر کی حقیقت کل سابق سی آئی اے کاؤنٹر ٹیرر اسٹیشن چیف، اسلام آباد، جان کریاکو نے کھل کر بیان کر دی۔
وہ کہتے ہیں کہ
“عمران خان نے امریکہ پر الزام لگانے سے پہلے امریکی سفیر سے رابطہ کیا اور کہا: 'میں مشکل میں ہوں اور تمام الزام امریکہ پر لگاؤں گا۔' امریکی سفیر نے کہا: 'ہم پر ہر الزام لگتا رہا ہے، آپ بھی لگا لیں۔'"
اگر آپ کو یاد ہو تو ہم نے اس وقت بھی لکھا تھا کہ امریکہ مخالف تقریریں اُنہیں وہی لکھ کر دے رہے ہیں۔
لیکن ہم ہوائی گھوڑوں پر سوار مخلوق ہیں، جن کا پیٹ صرف جذباتی نعروں سے بھر جاتا ہے۔ ایک مداری کی طرح اُن کے جذبات سے کھیلنے کا فن آپ کو آنا چاہیے۔ پھر اندھی تقلید میں مبتلا اِس قوم کو نہ کارکردگی کی ضرورت ہے اور نہ ہی ملکی تاریخ کی کامیاب خارجہ پالیسی سے کوئی سروکار ہے۔
جس نے پانچ سال قبل قومی ائر لائن پر پوری دنیا میں پابندی لگوائی تھی وہ عظیم مہاتما پاکستان کی شان تھا اور جن کی کوششوں کی بدولت آج پی آئی اے نے مانچسٹر کے لئے دوبارہ پروازیں شروع کییں وہ اس ملک کی عزت کو دنیا میں نیلام کررہے ہیں ۔
واپس کریں