جموں و کشمیر پر بھارتی غیرقانونی تسلط اور جارحیت کے 78 سال
        
    
    
        
            
         نجیب الغفور خان  (جموں و کشمیر لبریشن سیل)دنیا بھر میں کشمیری آج یوم سیاہ منا رہے ہیں، بھارت نے 27 اکتوبر 1947ء کو جموں و کشمیر میں غیرقانونی طور پر اپنی فوجیں اتار کر قبضہ کیا اور کشمیریوں کو حق خود ارادیت سے محروم کرتے ہوئے انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کا آغاز کیا ۔ آج کے دن کشمیری اقوام متحدہ کو جموں و کشمیر میں استصواب رائے کا وعدہ پورا کرنے کی یاد دلاتے ہیں
 27 اکتوبر1947ء جموں و کشمیر کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے جب بھارت نے پہلی بار مقبوضہ جموں و کشمیر میں اپنی فوجیں اتار کر بین الاقوامی قوانین اور اخلاقیات کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے نہتے اور بے گناہ کشمیریوں کی امنگوں کے برعکس جبر و تشدد اور دہشت گردی کے ذریعے کشمیر پر غیر قانونی قبضہ کیا تھا، اس دن سے معصوم کشمیری عوام مسلسل بھارتی مظالم کا شکار ہو رہے ہیں اور یہ خطہ جنت نظیر تب سے مسلسل کشیدگی اور کشمکش کا شکار ہے۔27 اکتوبر1947ء کو جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کے داخل ہوتے ہی کشمیری عوام کی مشکلات کا آغاز ہو گیا تھا، اور پھر 5 اگست 2019ء کو مودی سرکار نے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے منسوخ کر کے مقبوضہ کشمیر کو حاصل خصوصی درجہ ختم کر دیا تھا، جس سے اُن کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا۔ آج جموں و کشمیر کے عوام مقبوضہ کشمیر پر اسی  بھارتی غاصبانہ قبضے کے خلاف دنیا بھر میں یوم سیاہ منا رہے ہیں۔
 اس سال کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کو 78 سال ہو چکے ہیں۔ اس طویل عرصے میں بھارتی حکومتوں نے کشمیری عوام کو بدترین ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہے۔ 5 اگست 2019ء کے غیر قانونی اور یکطرفہ بھارتی اقدامات کے بعد بھارتی ظلم و ستم کا سلسلہ اور بھی دراز ہو گیا ہے۔ اس سال بھی یوم سیاہ کے موقع پر بھارتی مظالم دنیا کے سامنے لانے اور عالمی برادری کو بھارت کا اصل چہرہ دکھانے کے لئے جموں و کشمیر لبریشن سیل نے خصوصی پروگرامات ترتیب دئیے ہیں، اس سلسلہ میں 27 اکتوبر کو جموں و کشمیر لبریشن سیل کے زیر اہتمام مظفرآباد میں ایک بڑی احتجاجی ریلی اور جلسہ کا انعقاد کیا گیا ہے۔ ریلی میں آزاد جموں و کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان، آل پارٹیز حریت کانفرنس کے راہنماؤں سمیت وزراء حکومت طلباء، سیاسی سماجی، مذہبی و تجارتی تنظیموں کے نمائندگان، خواتین، طلباء صحافیوں، وکلاء اور سول سوسائٹی کثیر تعداد میں شرکت یقینی ہے، جبکہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر مبنی خصوصی ڈاکیومنٹریز بھی دکھائی جا رہی ہیں۔ 
اسلام آباد میں ایک بڑی احتجاجی ریلی ہو رہی ہے ، جس میں وفاقی وزراء، حریت قائدین، سینئر میڈیا پرسنز کے علاوہ مہاجرین مقیم پاکستان اور طلباء و طالبات کی کثیر تعداد میں شرکت بھی یقینی ہے۔ یوم سیاہ کی مناسبت سے جموں و کشمیر لبریشن سیل (کشمیر سنٹر راولپنڈی) کے زیر اہتمام ڈی چوک اسلام آباد میں دستخطی مہم کا انعقاد بھی کیاجا رہا ہے۔ جبکہ یوم سیاہ کے حوالے سے جموں و کشمیر لبریشن سیل کے ڈیجیٹل میڈیا ونگ نے خصوصی طور پر میڈیا کیمپینز شروع کی ہیں، جن کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کو دنیا کے سامنے لایا جا رہا ہے۔ کشمیر سنٹرز کے زیر اہتمام راولاکوٹ، لاہور، میرپور اور آزاد کشمیر کے دیگر شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے ، ریلیاں، سیمنارز اور کانفرنسز ہو رہی ہیں، جن میں بھارتی غیر قانونی قبضہ اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر اقوام عالم کے ضمیر کو جھنجھوڑا جاتا ہے۔
 آزاد جموں و کشمیر اور پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں بھی  عوامی اجتماعات، ریلیاں، واکس اور احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں تاکہ بھارتی غیر قانونی قبضہ کے خلاف عالمی توجہ حاصل کی جا سکے۔ در حقیقت بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر پر غیر قانونی قبضہ اور ظلم و بربریت سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی آواز کو دبانا چاہتا ہے اور انہیں ان کے اس بنیادی حق سے محروم رکھنا چاہتا ہے۔ جس کے لئے وہ کشمیریوں پر طاقت کا بے جا استعمال کر رہا ہے۔ بھارت کے اس رویے پر انسانی حقوق کے علمبرداروں کو چاہیے کہ وہ  اس جانب اپنی توجہ مبذول کریں اور تعصبانہ رویہ ختم کرتے ہوئے کشمیریوں کو ان کا بنیادی حق" حق خودارادیت" دلانے کے لئے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے بھارت پر دباؤ ڈالیں کہ وہ کشمیری عوام پر مظالم بند کرکے وہاں پر استصواب رائے کرائے جس کا وعدہ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھی کیا گیا ہے۔ 27 اکتوبر کو بھارت نے مہاراجہ ہری سنگھ کی پیش کردہ جعلی دستاویز الحاق کو جواز بنا کر کشمیر میں اپنی فوج اتار تھی۔ حالانکہ وائسرائے ہند لارڈ ماوئنٹ بیٹن نے مہاراجہ کو یہ لکھا تھا کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کا فیصلہ کرتے وقت کشمیری عوام کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے ان سے مشورہ کرے اور ریفرنڈم کے ذریعے ریاست جموں و کشمیر کا فیصلہ کرے۔ اکتوبر 1947ء  کو برطانوی وزیراعظم کے نام ایک ٹیلی گرام میں جواہر لال نہرو نے لکھا تھا کہ، ’میں یہ بات واضع کرنا پسند کروں گا کہ ہنگامی حالات میں کشمیر کی مدد کرنے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ اس پر اثر ڈالا جائے، کہ وہ بھارت میں شامل ہو، ہمارا نقطہُ نظر جس کا ہم کئی بار اعلان کر چکے ہیں یہ ہے کہ کسی متنازعہ علاقے کی شمولیت کا مسئلہ عوام کی خواہشات کے مطابق حل ہو، ہم اس نقطہء نظر کے پابند ہیں۔
 ان تمام یقین دہانیوں اور وعدوں کے باوجود بھارت آج تک اپنے وعدوں سے انحراف کر تا رہا، اور بالآخر پاکستان اور بھارت کے مابین اس مسئلہ پر جنگ چھڑ گئی، جس کے نتیجے میں بھارت خود اس مسئلہ کو اقوامِ متحدہ میں لے کر گیا، جہاں پر طویل بحث و تمحیص کے بعد اقوامِ متحدہ نے اپنی قراردادوں میں کشمیر پر رائے شماری کا مطالبہ کیا۔ 13 اگست 1948ء اور 5 جنوری1949ء کی قراردادوں میں اقوامِ متحدہ نے مسئلہ کشمیر کو تصفیہ طلب قراردے کر بھارت اور پاکستان دونوں پر زور دیا کہ وہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے قراردادوں پر عمل درآمد کریں۔ 5 جنوری کی قرارداد میں کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی نمائندگی ان الفاظ میں کی گئی ہے۔"ریاست جموں و کشمیر کی پاکستان یا بھارت میں شمولیت کے سوال کا فیصلہ جمہوری طریقے پر آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری سے کیا جائے"۔ 5 نومبر1947ء کو آل انڈیا ریڈیو سے خطاب، پاکستانی وزیراعظم لیاقت علی خان کے نام ٹیلی گرام، 25 نومبر1947ء کو برطانوی وزیراعظم کے نام ٹیلی گرام اور 11 ستمبر 1951ء کو اقوام متحدہ کے نمائندہ برائے پاک و ہند کے نام خط میں پنڈت جواہر لال نہرو نے نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کو تسلیم کیا بلکہ کشمیریوں کے مستقبل کا فیصلہ رائے شماری کے ذریعے کروانے کا اظہار بھی کیا، اس کے بعد بھی بھارتی حکمران مختلف معاہدوں اور یاداشتوں کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل کی یقین دہانیاں کرواتے رہے، مگر  یہ بھارت کی مکارانہ چال تھی جس کے ذریعے وہ عالمی اداروں کو بیوقوف بناتا رہا تاکہ کشمیر پر اپنا تسلط قائم رکھ سکے آج اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلانے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ لیکن اس حقیقت کو سمجھنے کیلئے بدمعاش بھارتی حکمران تیار ہیں نہ ہی سامراجی عزائم اور ایجنڈے والا امریکہ حتیٰ کہ عالمی برادری بھی اپنے مفادات کی سرحدوں سے آگے بڑھ کر دیکھنے کیلئے آمادہ نہیں ہے، جبکہ اقوام متحدہ جس کی تشکیل دوسری جنگ عظیم کے بعد لیگ آف نیشنز کی جگہ اس لئے عمل میں لائی گئی تھی کہ وہ اپنے رکن ممالک کے درمیان پائے جانے والے باہمی تنازعات کو طے کرنے کیلئے ٹھوس اور موثر جدوجہد کریگی۔ وہ بوجوہ اپنے آپ کو امریکی و یورپی مفادات کا اس قدرگرویدہ بنا چکی ہے کہ اس کی جانب سے کسی آزادانہ کردار کی توقعات بری طرح مجروح ہورہی ہیں۔ 
اقوام متحدہ خاص طور پر مسئلہ فلسطین اور کشمیر کو حل کرنے میں بری طرح سے ناکام ہوئی ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں اپنی 10 لاکھ سے زائد فوج اور سیکورٹی فورسز کے ذریعے قتل و غارت کا جو بازار گرم کررکھا ہے اس میں ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید کردیئے گئے ہیں اور خود اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کمیشن یہ تسلیم کرچکا ہے کہ”مقبوضہ وادی میں آئے دن ماورائے عدالت قتل اور گرفتاریوں کا سلسلہ انسانی حقوق کی اتنی واضح خلاف ورزی ہے کہ اس پر کسی طریقے سے پردہ ڈالنا ممکن نہیں۔  اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے اپنی رپورٹ میں مقبوضہ کشمیر میں بدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی تھی جو کہ ایک طویل خاموشی کے بعد احسن اقدام تھا مگر اس پر بھی عالمی ادارے کے کام پر جوں تک نہ رینگی، اب اقوام متحدہ سمیت عالمی برداری کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس رپورٹ کی روشنی میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لیتے ہوئے کشمیریوں کو حق خودارادیت دلانے کا وعدہ پورا کریں۔  
اگر امریکہ اور عالمی برادری واقعی جنوبی ایشیاء میں مستقل اور پائیدار امن کے خواہشمند ہیں تو انہیں پاکستان اور بھارت کے درمیان ان بنیادی تنازعات کے تصفیہ کیلئے بھی ٹھوس اور بامعنی کوششیں کرنی چاہیے۔  مسئلہ کشمیر سب سے پرانا اور تصفیہ طلب تنازعات میں سرفہرست ہے اس لئے امریکہ اور اقوام متحدہ کو اس کے منصفانہ حل کیلئے بھی خصوصی جدوجہد کرنی چاہئے۔
        
        
واپس کریں