دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
27 اکتوبر۔۔ تاریخ کا گہرا زخم ۔تحریر: محمد زاہد صفی
No image اکتوبر کا خیال آتے ہی کشمیریوں کے بہت سارے زخم تازہ ہو جاتے ہیں۔آٹھ اکتوبر 2005، جب لاکھوں لوگ آن واحد میں رزق خاک ہوئے۔ آزاد کشمیر میں 90 فیصد لوگ خیموں کے مکین بنے۔پانی اور بجلی کا نظام درہم برہم ہو گیا، کمیونیکیشن کا نظام برائے نام رہا۔ہر طرف ایسا لگ رہا تھا جیسے کہ زندگی ہی کشمیر کی دھرتی سے روٹھ گٸی ہے۔
لیکن تاریخ کا سب سے بڑا اور گہرا زخم اس وقت کشمیری قوم کو لگا جب 27 اکتوبر 1947 کو رات کی تاریکی میں بھارتی قابض فوج سری نگر کے ہوائی اڈے پر اتری یہ وہ منحوس سایے ہیں جن کے تلے تاریخ کے بدترین سانحات نے پرورش پائی۔بھارتی سامراج نے اپنے جبری قبضے کو دوام بخشنے کے لیے ہر استعماری حربہ استعمال کرنا شروع کیا۔ ریاست کے نصیب کی خرابی کی یہ بنیادی جڑ ہے۔ پھر ریاست جموں کشمیر میں مرغ چوری سے قتل عام بھارتی فوج کی پہچان بن گئی۔
کشمیر میں ظلم اور خون کی کہانی شروع ہوئی۔پھر یہ خون خا ک صحرا پہ گرا اور کف قاتل پہ جما، پھر یہ خون مساجد اور خانقاہوں میں گرا،طالب علموں کے قرطاسوں پہ گرایا گیا۔ اس خون کو ماٶں کی کوکھ میں بے دردی سے بہایا گیا۔اس خون بے بہا کو خشکی سے لیکر پانیوں تک میں بہایا گیا۔ اس کی ہولی کہیں وسیع و عریض میدانوں تو کہیں برف پوش پہاڑوں پر کھیلی گٸی۔
27 اکتوبر حقیقت میں کشمیری قوم کی امنگوں آرزٶں کے خون کا دن ہے۔ یہ غلامی کا دن ہے۔غلامی کے اس زخم نے ہر کشمیری کے وجود کو سرطان زدہ کر دیا ہے۔
بھارت کے اس جبری قبضے میکاولی اور انسانی اقدار سے خالی سیاست کاری نے کشمیر کو جہنم بنا کے رکھ دیا ہے۔بھارتی جس خوں کو ارزاں حقیر اور بے توقیر سمجھ کر بہا رہے ہیں وقت کی میزان پر تل رہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب خاک نشینوں، لاوارثوں اور کمزوروں کا یہ خون برگ و بہار لائے گا اور بھارتی سفاکوں کے پاؤں تلے زمین کھسکتی چلی جائے گی۔تب آزادی کی روحٍ مضمحل کو قرار آئے گا۔
واپس کریں