دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جموں کشمیر لیبریشن لیگ کیوں ضروری ہے ؟
No image آذاد جموں کشمیر کے سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن(آذاد کشمیر) کے مرکزی لیڈر راجہ فاروق حیدر خان نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں آذاد کشمیر کے سیاسی اور حکومتی نظام پر عدم اعتماد جبکہ جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے بیانیہ سے مکمل اتفاق کیا ہے،جس عوامی ایکشن کمیٹی کو وہ کچھ ہی عرصہ قبل”بھارتی ایجنڈا“ قرار دیتے نہیں تھکتے تھے،خیر محترم راجہ صاحب دیر آئے درست آئے۔ راجہ فاروق حیدر جیسے دبنگ اور سکہ بند سیاسی لیڈر کی زبان سے جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی سے اتفاق کر لینے کا واضع مطلب آذاد کشمیر کے تباہ حال زمینی حقائق کو تسلیم کرنا ہے۔راجہ صاحب نے اپنے انٹرویو میں کھل کر کہا کہ عوام نے اس نظام کو مسترد کر دیا ہے کیونکہ عوام اس نظام سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔
بقول راجہ صاحب کے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر آذاد کشمیر کی روائیتی سیاسی جماعتوں سے ریاست کے عوام کا موجودہ سسٹم اور53 کے ٹولے سے اعتماد مکمل طور پر اٹھ چکا ہے تو پھر ممکنہ طور پر پیدا ہونے والے”سیاسی خلا“ کو کون اور کیسے پر کرے گا؟
آذاد کشمیر میں دونوں مرتبہ عوامی ایکشن کمیٹی کے احتجاج اور کال کے موقع پر واضع طور پر دیکھا گیا کہ پاور پالیٹکس پر یقین رکھنے والی تمام سیاسی جماعتیں منافقت کی بڑی مثال بن کر ایک جانب کھڑی تھیں جبکہ صرف سابق صدر ریاست کے ایچ خورشید مرحوم کی سیاسی جماعت جموں کشمیر لیبریشن لیگ نے کھل کر اور ڈنکے کی چوٹ پر عوامی ایکشن کمیٹی کا بھر پور ساتھ دیا،جسے آذاد کشمیر کے عوامی حلقوں میں اور بیرون ممالک کشمیری کیمونٹی میں بے حد سراہا گیا۔
مختصراً عرض کرتا ہو ں کہ خاکسار پہلے بھی اپنے ایک کالم میں یہ بات گوش گزار کر چکا ہے کہ اگر جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی آمدہ الیکشن میں ریاستی سیاسی جماعت، جموں کشمیر لیبریشن لیگ کا پلیٹ فارم استعمال کرتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اگلی قانون ساز اسمبلی روائیتی اور غیر ریاستی سیاسی جماعتوں کے تعلق دار سیاسی لیڈروں سے پاک اور صاف ہو چکی ہو گی اور آذاد کشمیر کی اس قانون ساز اسمبلی میں جموں کشمیر لیبریشن لیگ کے اعلی تعلیم یافتہ اور جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے مشترکہ عوامی نمائندے موجود ہوں گے جو حقیقی معنوں میں ریاست کی عوام کی ترجمانی کریں گے، عوام کے مسائل حل کریں گے اور عالمی سطح پر کشمیر ایشو کو اجاگر کریں گے۔
آخر میں یہ سوال کہ جموں کشمیر لیبریشن لیگ ہی کیوں ضروری ہے تو دوبارہ عرض کیئے دیتا ہوں،جیسے کہ بھی پہلے کہا کہ آذاد کشمیر کی تاریخ میں دو مرتبہ ریاست کے عوام لوٹ کھسوٹ کے نظام کے خلاف اور اپنے حقوق کے لیئے متحد ہو کر اپنے گھروں سے باہر نکلے لیکن دونوں مرتبہ اقتدار کی رسیا تمام سیاسی جماعتیں لوٹ کھسوٹ والے نظام کے ساتھ کھڑی پائی گئیں جبکہ جموں کشمیر لیبریشن لیگ ریاستی عوام کے کاندھے کے ساتھ کاندھا ملا کر میدان عمل میں پوری قوت کے ساتھ موجود رہی۔ریاست کے عوام کے ساتھ کون سے سیاسی جماعت مشکل وقت میں کھڑی رہی ہے،اس سے بڑی مثال اور حقیقت اور کیا ہو سکتی ہے۔
واپس کریں