زبان ایک ثقافتی وحدت ضرور ہے،مگر سیاسی وحدت نہیں۔طاہر سواتی

دنیا کے نقشے پر قوموں اور ریاستوں کی تقسیم ہمیشہ زبان، نسل، یا مذہب کی بنیاد پر نہیں ہوئی۔کسی ریاست کی ایک زبان تو ہوسکتی ہے، مگر کوئی زبان صرف ایک ہی ریاست تک محدود نہیں ہوسکتی۔یہ ناممکن ہے کہ دنیا میں ایک زبان بولنے والے تمام لوگ صرف ایک ہی ریاست کے شہری ہوں۔زبان ایک ثقافتی وحدت ضرور ہے،مگر سیاسی وحدت نہیں۔دنیا میں آج تقریباً ۴۷ کروڑ لوگ انگریزی بولتے ہیں۔ یہ لوگ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں آباد ہیں۔ زبان ایک ہے، مگر ریاستیں پانچ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سب کی نسلی جڑیں بھی برطانیہ سے جا ملتی ہیں، لیکن ان میں سے ہر قوم اپنی علیحدہ شناخت پر فخر کرتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی والدہ نے اگرچہ اسکاٹ لینڈ سے ہجرت کی تھی، مگر ٹرمپ خود کو اسکاٹش یا برٹش نہیں بلکہ امریکن کہتا ہے۔جب ٹرمپ نے ازراہِ سیاست کینیڈا کو امریکہ میں شامل کرنے کی تجویز دی تو کینیڈا کے وزیرِ اعظم اور عوام کا ردِعمل نہایت سخت تھا۔اس کا مطلب ہے کہ زبان یا نسل کی یکسانیت بھی ریاستی آزادی کے احساس کو کمزور نہیں کرسکتی۔حالانکہ ٹرمپ تو خونی لکیر کو مٹا کر ایک “گریٹر انگلش اسٹیٹ” بنانا چاہتا تھا۔اسی طرح دنیا کے ۲۵ ممالک میں تقریباً ۵۰ کروڑ لوگ عربی بولتے ہیں۔ اگر صرف زبان کی بنیاد پر ریاست بنتی تو یہ سب ایک ملک ہوتے، مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔سعودی عرب کا عرب خود کو سعودی، امارات کا عرب اماراتی اور قطر کا عرب قطری کہلاتا ہے۔یہاں تک کہ کچھ قبائل، مثلاً المری، مختلف عرب ممالک میں مشترک طور پر آباد ہیں، مگر ہر خطے کا المری اپنی مقامی شناخت پر فخر کرتا ہے۔اسی طرح ۱۳ کروڑ سے زائد لوگ فارسی بولتے ہیں۔ یہ زبان ایران، افغانستان، تاجکستان اور ازبکستان میں بولی جاتی ہے۔
لیکن ایران کا فارسی بولنے والا ایرانی ہے، افغانستان کا فارسی بولنے والا افغانی ہے، اور افغانستان کے تاجک و ازبک نسل کے لوگ بھی اپنی ریاستی شناخت یعنی “افغانی” پر قائم ہیں۔پنجابی دنیا کی بڑی زبانوں میں سے ایک ہے، جسے تقریباً ۱۵ کروڑ لوگ بولتے ہیں۔ان میں سے ۹ کروڑ پاکستان اور ۴ کروڑ بھارت میں آباد ہیں۔تقسیمِ ہند کے وقت یہ لوگ صرف سرحد سے جدا ہوئے تھے، زبان اور ثقافت اب بھی مشترک ہے۔
اس کے باوجود ایک پنجابی خود کو پاکستانی اور دوسرا بھارتی کہلوانا فخر سمجھتا ہے۔
پشتو بولنے والوں کی تعداد تقریباً ۶ کروڑ ہے، جن میں ڈھائی کروڑ افغانستان اور ساڑھے تین کروڑ پاکستان میں رہتے ہیں۔
ڈیڑھ صدی قبل افغان پختونوں نے اپنے آپ کو بچانے کے لئے ان باقی ماندہ ساڑھے تین کروڑ کو غیروں کے رحم و کرم پر چھوڑا تھا، اور آج ایک سیاسی فائدے کے لئے دعویٰ کررہے ہیں کہ یہ بھی ہمارے شہری ہیں ،
دنیا میں جہاں دیگر اقوام مختلف ریاستوں میں آباد ہیں وہاں پختون اگر دو ممالک میں آباد ہیں تو یہ نہ بین الاقومی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور نہ ہی حکم خداوندی سے کوئی بغاوت ہے ۔
اگر صرف زبان ریاست کی بنیاد ہوتی تو دنیا میں شاید دو سو کے بجائے صرف دس پندرہ ریاستیں ہوتیں۔
واپس کریں