
تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کی جانب سے لاہور میں احتجاج اور شہر کی جزوی بندش 10 اکتوبر کو شروع ہوئی جبکہ احتجاج کی وجہ سے شہر کی سڑکیں اور نقل و حرکت متاثر تھی۔
پہلے سے طے شدہ اور اعلان شدہ، سعودی بزنس کونسل کے چیئرمین شہزادہ منصور کی سربراہی میں وفد 11 اکتوبر کو لاہور پہنچا،جو پہلے سے سارے ملک کو معلوم تھا۔ پنجاب کی وزیر اعلیٰ مریم نواز نے ان کے اعزاز میں لاہور قلعہ میں ڈنر دیا اور سرمایہ کاری کے حوالے سے بات چیت کی۔
ٹی ایل پی کا احتجاج جو 10 اکتوبر (جمعہ) کو فلسطین کی حمایت میں شروع تھا اور لاہور سے اسلام آباد کی جانب رواں دواں تھا، اچانک اس دوران پولیس اور ٹی ایل پی کے مظاہرین کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں، سڑکوں پر کنٹینرز لگائے گئے، موبائل انٹرنیٹ معطل ہوا، ستھرا پنجاب کی مشینری جلائی گئی،مریدکے میں سبزی منڈی جلادی،شاہدرہ پولیس سٹیشن پر حملہ کیا گیا، موٹر سائیکلوں کی لوٹ مار، اور انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچایا گیا۔
سولین گاڑیاں، میٹرو اسٹیشن، دکانیں تباہ، پولیس کی گاڑیاں جلادیں گئیں،پولیس کے دو افسران کو گولیاں مار کر قتل اور درجنوں پولیس اہلکاروں کو زخمی کر دیا گیا۔ایک سرکاری کرین اور پولیس گاڑی پر قبضہ کر لیا گیا،عوامی املاک کو نقصان پہنچایا گیا، نیشنل ہائی وے اور موٹر وے بلاک ہونے سے ملکی تجارت کو اربوں روپے کا روزانہ نقصان ہوا،اور یوں پنجاب کا صوبائی دارلحکومت لاہور جام ہو کر رہ گیا۔
اب کوئی راہنمائی کرے کہ تحریک لبیک پاکستان کا مذکورہ احتجاج فلسطین اور اسرائیل تنازعے سے متعلق تھا کہ سعودی وفد کی لاہور آمد سے متعلق تھا؟
یہ کون سا اتنا بڑا اور مضبوط خفیہ ہاتھ ہے جو ابھی بھی اپنے مقاصد کے لیئے اس ریاست کے اندر اپنی الگ ریاست کو کامیابی سے چلائے جا رہا ہے؟اور اپنے آپ کو اس ملک کے حکمران کہنے والے بے بس نظر آتے ہیں چہ جائے کہ ملک میں آگ لگی ہو۔
واپس کریں