دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ڈیجیٹل اکانومی کے دعوے اور زمینی حقائق
No image وزیراعظم محمد شہباز شریف کی زیرِ صدارت ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں ملک میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو تیز کرنے اور ڈیجیٹل معیشت کے دائرۂ کار کو وسعت دینے کے لیے کئی فیصلے کیے گئے۔ وزیراعظم نے اس موقع پر کہا کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے ذریعے ڈیجیٹل معیشت کا نفاذ ملک کو ترقی کی نئی بلندیوں تک پہنچا سکتا ہے۔ حکومت آئی ٹی اور مصنوعی ذہانت کے شعبوں کو ترجیحی بنیادوں پر فروغ دے رہی ہے تاکہ معیشت کو جدید خطوط پر استوار کیا جا سکے۔انھوں نے واضح کیا کہ مصنوعی ذہانت کو معاشی ترقی، صنعتی پیداوار میں اضافے، سرکاری نظام میں شفافیت اور نوجوانوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ آج دنیا بھر کے ممالک مصنوعی ذہانت سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ معیشتوں کو ڈیجیٹل بنا کر شفافیت میں اضافہ اور بدعنوانی میں کمی لائی جا رہی ہے۔ دنیا تیزی سے ایک نئے، مؤثر اور آسان اقتصادی نظام کی جانب بڑھ رہی ہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان واقعی اس تبدیلی کے لیے تیار ہے؟محض یہ اعلان کر دینا کہ ’ہم ڈیجیٹل معیشت کی طرف جا رہے ہیں‘ کافی نہیں۔ عملی طور پر اس کے لیے درکار تیاری، بنیادی ڈھانچا اور پالیسی استحکام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستان میں انٹرنیٹ سروسز کا حال شہری علاقوں میں بھی تسلی بخش نہیں تو پھر دیہات اور چھوٹے شہروں میں یہ نظام کس طرح کامیاب ہو سکتا ہے؟ انٹرنیٹ کے بغیر اے آئی میں پیش رفت پر سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ جب بھی الیکشن، قومی ایام ، مذہبی تہوار ہوتے ہیں یا کسی سیاسی جماعت کے مظاہرے کا وقت آتا ہے تو انٹرنیٹ سروسز معطل کر دی جاتی ہیں۔ ایسے اقدامات براہِ راست ڈیجیٹل معیشت کے بنیادی ڈھانچے کو متاثر کرتے ہیں۔اسی طرح کئی ہوٹل اور پٹرول پمپ ڈیجیٹل ادائیگی پر اضافی رقم وصول کرتے ہیں۔ ظاہر ہے، کوئی صارف بلاوجہ زیادہ ادائیگی نہیں کرنا چاہے گا۔ یہ طرزِعمل ڈیجیٹل ادائیگی کے فروغ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ دنیا جہاں سکس جی اور سیون جی ٹیکنالوجی کی تیاری میں مصروف ہے، وہاں پاکستان میں تھری جی اور فور جی بھی اکثر غیر مستحکم رہتے ہیں۔ اس ماحول میں ’ڈیجیٹل معیشت‘ کا خواب حقیقت سے زیادہ ایک خواہش محسوس ہوتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت یہ سمجھے کہ عوام ڈیجیٹل معیشت کا حصہ کیوں نہیں بن پا رہے اور ان مسائل کو حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی اور مقررہ مدت کے اندر حل کرے۔ بڑی رکاوٹ بیوروکریسی اور پیچیدہ نظام بھی ہے۔ جب عام شہری کی بنیادی ڈیجیٹل سروسز تک رسائی ہی آسان نہ ہو تو پھر ڈیجیٹل معیشت کی باتیں خوابوں سے زیادہ کچھ نہیں۔ڈیجیٹل اکانومی کے حوالے سے حکومت زمینی حقائق مد نظر رکھ کے فیصلے کرے۔
بشکریہ۔نوائے وقت
واپس کریں