دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا اسے ہم اپنی کامیابی کہیں گے؟
No image امریکی،برطانوی اور چند”برادر“ خلیجی ممالک کے دباو کے تحت پاکستان کو سیاسی، معاشی،بیرونی اور اندرونی عدم استحکام سے مسلسل دوچار رکھنا ہے،مقصد وسیع پیمانے پر چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو یعنی سی پیک منصوبہ کو روکنا ہے اور ساتھ میں چین کے ساتھ تعلقات میں فاصلہ پیدا کرنا ہے۔ امریکی لنچ،پروٹوکول اور امریکی تعریفوں کے پلوں سے گزرنے کے بعد سے ہم نے آزمودہ اور اپنے ہمسائے دوست ملک چین کو مسلسل آزمائش میں ڈال رکھا ہے۔
چین اور امریکہ کی حالیہ سرد جنگ کے نتیجے میں ایک جانب ہم اپنے ہمسایہ ممالک سے اور وہ ہم سے دست و گریباں ہیں تو ساتھ ہی دوسری جانب ہمیں علاقائی طور پر تنہاء کرنے کی کوششیں بھی رنگ لاتی دکھائی دے رہی ہیں۔
غلطیاں نہیں بلکہ بلنڈرز ہمارے بھی ہیں اور سازشیں ہمارے ہمسایوں کی بھی ہیں لیکن سوال یہ بھی تو ہے کہ اگر ہم اپنے ہمسایوں سے ہی اپنے سینگ پھنسا کر حالت جنگ میں رہے،جس کے نتیجے میں ہماری علاقائی تجارت بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے اور پچیس کروڑ آبادی کا یہ ملک مسلسل عدم استحکام کا شکار رہتا ہے تو کیا اسے ہم اپنی کامیابی کہیں گے؟
ہماری ترجیح اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر اور خوشگوار تعلقات کے بجائے کشیدگی کیوں ہے اور اس سے فائدہ کس کو پہنچتا ہے؟
پاکستان حالیہ عرصہ میں جن اندرونی اور خارجی مشکلات کا شکار ہے،یہی تو وہ وقت ہوتا ہے جب خفیہ اداروں اور وزارت خارجہ نے اپنا اصل کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔
ہماری انٹیلی جنسیاء اور وزارت خارجہ جس پر اربوں روپے خرچ کر دیئے جاتے ہیں آخر کون سے والی بیماری کی دوا ہیں؟احتشام الحق شامی
واپس کریں