دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ترجمان پاک فوج کا سٹیٹس کو نہ چلنے دینے کا دو ٹوک اعلان
No image ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (ڈی جی آئی ایس پی آر) لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے خیبر پختونخوا میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور اْن کے سہولت کاروں کو جگہ دی گئی۔ یہاں گورننس اور عوامی فلاح و بہبود کو جان بوجھ کر کمزور کیا گیا، جس کا خمیازہ آج تک خیبر پختونخوا کے بہادر اور غیور عوام اپنے خون سے بھگت رہے ہیں۔ اگر ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا تو بدر کے میدان کو یاد کریں کہ سرورِ کائنات ؐ نے اْس دن کیوں بات چیت نہ کی؟ وہاں تو باپ کے سامنے بیٹا اور بھائی کے مقابلے میں بھائی کھڑا تھا۔
گذشتہ روز کور ہیڈکوارٹرز پشاور میں اہم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم سب نے مل کر دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔انہوں نے بتایا کہ 2024ء کے دوران خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر 14 ہزار 535 آپریشنز کیے گئے، یعنی اوسطاً یومیہ 40 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز ہوئے۔ ان کارروائیوں کے دوران 769 دہشت گرد جہنم واصل کیے گئے، جبکہ 577 قیمتی جانوں نے جامِ شہادت نوش کیا جن میں پاک فوج کے 272 افسران و جوان، پولیس کے 140 اہلکار اور 165 معصوم شہری شامل ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ خیبر پختونخوا میں ریاست مخالف قیادت کسی صورت برداشت نہیں کی جا سکتی۔
دہشت گردی کے واقعات نہ صرف جاری ہیں بلکہ ان میں تیزی آرہی ہے، کل ہی ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس سینٹر پر بارودی مواد سے حملہ کیا گیا جس پر جوابی کارروائی میں تین دہشت گرد ہلاک ہوئے، بنوں میں دو دہشت گرد مارے گئے جبکہ دو روز قبل اورکزئی میں 30 فتنہ الخوارج کو جہنم واصل کیا گیا۔ ان آپریشنز میں افسران اور جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ شہداء کی قربانیوں کو قوم ہمیشہ یاد رکھے گی اور دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے سیاسی قیادت میں بھی اسی عہد اور عزم و ارادے کی ضرورت ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے درست کہا کہ 2016ء کے سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا آغاز کیا اور ایک پرامن خیبر پختونخوا کے خواب کی تعبیر کے قریب پہنچ گئے، مگر بدقسمتی سے بعد میں دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو دوبارہ جگہ دی گئی۔ ان عوامل کو سمجھنا ضروری ہے جن کی وجہ سے آج دہشت گردی دوبارہ سر اٹھا رہی ہے۔ انہوں نے دہشت گردی کے خاتمے میں رکاوٹ بننے والی پانچ بنیادی وجوہات گنوائیں:
(1) نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہ کرنا،(2) دہشت گردی کے معاملے پر سیاست اور قوم کو اس میں الجھانا،(3) بھارت کا افغانستان کو دہشت گردی کے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کرنا،(4) افغانستان میں دہشت گردوں کو جدید ہتھیاروں اور پناہ گاہوں کی دستیابی،(5) مقامی و سیاسی پشت پناہی کے حامل دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کا گٹھ جوڑ۔
سیاستدانوں اور حکومتوں نے فیصلہ کیا تھا کہ دہشت گردی کے مقدمات کے لیے عدالتی نظام کو مضبوط کیا جائے، مگر آج صورتحال یہ ہے کہ اگست 2025ء تک خیبر پختونخوا کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں سے کسی دہشت گرد کو سزا نہیں ملی۔
دہشت گردوں کو بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے، اور تاریخ بتاتی ہے کہ دہشت گردوں جیسے عناصر سانپ کی طرح ہوتے ہیں، جو انہیں پالتا ہے وہ خود بھی ان کے زہر سے نہیں بچ سکتا۔ یہ خود افغانستان کے لیے بھی خطرہ ہیں جو آج بھارت کی پراکسی کے طور پر کام کر رہا ہے۔اسی طرح طالبان حکومت پاکستان میں دہشت گردی کے لیے ٹی ٹی پی کو سپورٹ کرتی ہے۔ یہ بھی طالبان حکومت کو موقع ملنے پر ڈسنے سے باز نہیں رہیں گے۔ پاکستان اور افغانستان میں کشیدگی کی انتہا کے موقع پر افغان وزیر خارجہ ملا متقی کا بھارت کا دورہ کرنا بھی پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
آرمی چیف واضح کر چکے ہیں کہ گورننس کے خلا کو پْر کرنے کے لیے فوج کے افسر اور جوان اپنا خون دے رہے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے بغیر اور سیاست کے ساتھ دہشت گردی سے نجات ممکن نہیں۔ پاکستان کی ریاست، اس کی افواج اور ادارے کسی سیاسی دباؤ یا بگاڑ کی پرواہ نہیں کریں گے۔ ریاست اور عوام کو کسی ایک شخص کی خواہش پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔
پاکستان نے افغانستان کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔پاکستان برادر اسلامی ملک کے طور پر امن، استحکام اور باہمی احترام کا خواہاں ہے۔ افغانستان میں موجود غیر ریاستی عناصر نہ مذہب، نہ نسل اور نہ روایت سے کوئی تعلق رکھتے ہیں؛ ان کا مقصد بھارت کے ایما پر صرف تشدد اور انتشار ہے۔ امریکی اسلحہ اب بھی وہاں موجود دہشت گرد گروہوں کے ہاتھ میں ہے جو پورے خطے کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ پاکستان کی سلامتی کسی دوسرے ملک، خصوصاً افغانستان، کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑی جا سکتی۔ پاکستانی قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے سامنے ڈٹی ہوئی ہے، اور ان شاء اللہ ہمارے شہداء کا خون کبھی رائیگاں نہیں جائے گا۔ دہشت گردی میں بھارت ملوث ہے اور کابل کی کٹھ پتلی انتظامیہ اس کی سرپرستی میں پاکستان میں دہشت و وحشت پھیلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جب تک ان عزائم کے آگے بند نہیں باندھا جاتا، ملک سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔یقیناً ہمارے سکیورٹی ادارے دہشت گردوں کے خلاف مختلف آپریشنز کر رہے ہیں اور کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں، مگر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مسلسل کارروائیوں کے باوجود دہشت گرد اپنے اہداف تک کیسے پہنچ جاتے ہیں۔ اس سوال کا سنجیدہ جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے جو پانچ وجوہات بیان کی ہیں، جمہوری حکومت ان پر فوری طور پر کام شروع کرے۔ کسی بھی صوبے یا اکائی میں ریاست مخالف انتظامیہ نہیں لائی جا سکتی۔ یہ ملک ایک منظم ریاست ہے، کوئی غیر سرکاری تنظیم نہیں جہاں ریاست مخالفین کو فیصلوں کا اختیار دیا جائے۔ جو عناصر پاکستان میں دہشت گردی کی سہولت کاری کر رہے ہیں۔ریاست مخالف بیانیہ پھیلا رہے ہیں۔پاکستان میں دوبارہ دہشت گردی لانے کے ذمہ دار ہیں، انہیں کٹہرے میں لایا جائے۔اب جبکہ سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو کام کرنے کی بھی اجازت دے دی ہے، متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ وہ مضبوط شواہد کے ساتھ ان عناصر کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کریں تاکہ آئندہ کوئی بھی پاکستان کے امن و استحکام سے کھیلنے کی جرأت نہ کرے۔
واپس کریں