دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
یہ محض اتفاق ہے کہ ایک ہی وقت میں یہ پانچ واقعات رونما پذیر ہو رہے ہیں۔طاہر سواتی
No image خیبر پختونخوا میں ٹی ٹی پی کے دہ شتگردوں نے پاکستان کے سیکیورٹی فورسز پر حملے تیز کر دیے ہیں۔ٹی ٹی پی کی سرپرست افغان طالبان کا وزیر خارجہ بھارت کے دورے پر ہے اور وہاں سے پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے۔
عمران نیازی نے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ گنڈا پور کی جگہ سہیل آفریدی کو لانے کا فیصلہ کیا ہے، جو ٹی ٹی پی کی ذیلی شاخ لشکر اسلام کا سرگرم رکن رہا ہے۔اور ایک ایسے وقت میں جب خناس اور عزرائیل نے امن معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں اور غزہ میں عوام جشن منا رہے ہیں، ٹی ایل پی کے دہشت گردوں نے اسلام آباد پر چڑھائی کر دی ہے۔ یاد رہے کہ جب ۷مئی کو بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تھا، اس وقت بھی یہ فلسطین کو آزاد کرانے کے نام پر اسلام آباد پر چڑھ دوڑے تھے۔اور ساتھ ہی بھارت ایک بار پھر پاکستان پر حملے کی تیاری کررہا ہے۔
اب ذرا سچ سن لیجیے:
"فرقہ عمرانیہ" جیسے زہریلے پودے کی پنیری راولپنڈی کینٹ میں اگائی گئی اور آخر میں فیض اور باجوہ نے اسے ایک تناور درخت بنا دیا۔اسی طرح افغان طالبان بھی کوئٹہ اور پشاور کی چھاؤنیوں میں پروان چڑھے۔
ٹی ایل پی تو جنرل فیض کی اعلانیہ ناجائز اولاد ہے۔اور ان سب دہشت گردوں کے بیانیے کو پوری دنیا میں پھیلانے والا سوشل میڈیا نیٹ ورک جنرل عاصم باجوہ اور غفور کا بنایا ہوا ہے۔
لیکن سارا قصور صرف ملٹری اسٹبلشمنٹ اور جرنیلوں کا نہیں۔ مذہبی جماعتوں نے ہمیشہ ان دہ شتگردوں کی سرپرستی کی ہے،ساتھ سیاسی جماعتیں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہیں، کیونکہ ہمارا قومی بیانیہ ہی یہی تشکیل پایا تھا۔
آج سے پندرہ سال قبل، جب امریکیوں نے شیخ اسامہ کو ہلاک کیا تھا، تو قومی اسمبلی میں ن لیگ کے اراکین نے جذباتی تقاریر کر کے انہیں شہید قرار دیا، حالانکہ وہ ساری زندگی سی آئی اے کے لیے کام کرتے رہے۔ لیکن ہمارے لیے وہ صلاح الدین ایوبی تھے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف، جو آج کل بڑی جذباتی تقاریر کر رہے ہیں، موصوف نے صرف تین سال قبل فتح کابل پر جشن منایا اور ٹویٹ کیا:
“طاقتیں تمہاری ہیں اور خدا ہمارا ہے۔”
اس زمانے میں ن لیگی دانشور رضی دادا ہمارے ساتھ لڑ پڑے اور دو بار ہمارا واٹس ایپ گروپ چھوڑ گئے، کیونکہ وہ ان کے خلاف ایک لفظ سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔
ہماری جدوجہد اس ملک میں حقیقی جمہوریت کے لیے ہے، اس بنا پر ہم نے جرنیلوں کی سیاست میں مداخلت کی مخالفت کی ہے اور کرتے رہیں گے۔
لیکن ہم کوئی علی وزیر نہیں، جو ساری زندگی
“یہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے”
کے نعرے لگاتے رہے، لیکن پھر اسٹبلشمنٹ اور ریاست کی مخالفت میں اتنے آگے نکل گئے کہ افغان طالبان کی تعریفوں پر اتر آئے۔ یعنی وردی کی عداوت میں دہشت گردی کو گلے لگا لیا۔
ان فتنوں کو پروان چڑھانے میں ہمارا اسٹبلشمنٹ سے شدید اختلاف ہے، لیکن ان کا خاتمہ کرنے میں کوئی اختلاف نہیں۔ اگر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار بھارت افغان طالبان کے ساتھ دوستی کی پینگیں بڑھا سکتا ہے، تو ہم بھی اپنے سیکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے۔
اور آخر میں، جو سمجھتے ہیں کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی دو الگ مخلوق ہیں، وہ اپنی یہ غلط فہمی دور کر لیں۔
دونوں کا امیر ایک ہے،
دونوں کا نصب العین ایک ہے، یعنی اپنی خود ساختہ شرعیت کو بزور طاقت نافذ کرنا، اور اس راہ میں رکاوٹ بننے والے ہر چیز کو ختم کرنا۔
کچھ لوگ گزشتہ بیس سالوں سے یہی راگ الاپ رہے ہیں کہ آپریشن کسی مسئلے کا حل نہیں ، ان سے مذاکرات کریں ،
عمران نیازی نے بھی دو دن قبل پاک فوج کے ایک کرنل ، میجر سمیت کئی جوانوں کی شہادت پر کہا تھا کہ اس کی بنیادی وجہ آپریشن ہے ، ہمارے دور میں مکمل امن وُ امان بحال ہوگیا تھا ، تو یاد دلاتا چلوں کہ دور عمرانی میں صدر پاکستان عارف علوی اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ٹی ٹی پی کو مشروط معافی کی پیشکش کی تھی ،
۱۷ ستمبر ۲۰۲۱ کو ٹی ٹی پی نے اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان میں شریعہ نافذ کرنے کے لیے اپنی جدوجہد کو جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا ، اور ساتھ ہی 24 گھنٹوں میں خیبر پختونخوا کے 5 اضلاع میں 5 حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں 9 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار شہید ہوگئے تھے،
وہ اپنی خود ساختہ شریعت کے نفاذ سے نیچے کسی چیز پر راضی نہیں ، اب مذاکرات کس ایشو پر کرنے ہیں ؟ اور اِن مولویوں کی منافقت دیکھیں:
بھارت میں جا کر اُن کا وزیر خارجہ متقی بھارتی ہم منصب کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں کہتا ہے کہ "افغانستان ایک آزاد ملک ہے، پاکستان کی کسی قسم کی کارروائی ہماری قومی سلامتی کے خلاف ہے، جس کا ہم مناسب جواب دیں گے۔"
یعنی بھارت بغیر کسی ثبوت کے اپنی سرزمین پر ہونے والی دہشت گردی کو بہانہ بنا کر پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے، لیکن پاکستان ٹی ٹی پی کے دہشت گردانہ کارروائیوں پر افغانستان میں اُن کے ٹھکانوں پر حملہ نہیں کر سکتا۔
صدر ٹرمپ کے ساتھ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل کی ملاقات انُ کے نزدیک حرام کے زمرے میں آتا ہے اور یہ مولوی فوراً قرآنی آیت لے آتے ہیں کہ "یہود و نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے،"
لیکن جب اِن کا وزیر خارجہ بھارتی ہم منصب کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ملاقات کر لے تو پھر وہ فخر کا مقام بن جاتا ہے۔
بظاہر تو یہ متقی کا پہلا دورہ بھارت ہے لیکن آپ کو بتاتا چلوں کہ کافی عرصے سے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے اہلکار کابل کے قریب ششدرہ کے مقام پر افغان تالبان سے ملاقاتوں کررہے ہیں ۔
اب اس سوال کا جواب مل گیا کہ یہ پانچ قسم کے واقعات ایک ہی وقت میں کیوں رونما پذیر ہورہے ہیں ؟؟؟
میرے خیال میں اب وہ گھڑی آگئی ہے کہ اس فتنے کے خلاف ہر فورم پر جدوجہد کی جائے۔
ہم صرف دو لفظ لکھ سکتے ہیں، اور یہ لکھتے رہیں گے۔جو دوست ان بریلوی اور دیوبندی دہشت گردوں کے ہمدرد ہیں، وہ براہ کرم اپنا راستہ جدا کر لیں۔
واپس کریں