
ہم میں سے اکثر اپنی تاریخ سے ناواقف ہیں تو باقی دنیا کی کیا خبر ہوگی؟ ہم سنی سنائی داستانیں یاد کرتے ہیں اور پھر آگے وہی سناتے رہتے ہیں۔عربوں اور اسرائیل کے درمیان چار بڑی جنگیں ہو چکی ہیں۔ چاروں مرتبہ عربوں نے اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے مل کر اس پر حملہ کیا اور شکست کھائی۔
پہلی جنگ 1948 کی عرب اسرائیل جنگ کہلاتی ہے جو اسرائیل کے اعلانِ آزادی کے چوبیس گھنٹے کے اندر شروع ہوئی، اور عربوں کی شکست پر ختم ہوئی۔
دوسری جنگ نہر سویز ہے جو 1956 میں لڑی گئی۔
تیسری 1967 کی عرب اسرائیل جنگ تھی جس میں ایک بار پھر مصر، اردن، عراق اور شام نے مل کر اسرائیل پر حملہ کیا۔ صرف ایک ہفتے میں اسرائیل نے مصر سے صحرائے سینا اور غزہ کی پٹی، اردن سے مغربی کنارے کا علاقہ اور شام سے گولان کی پہاڑیاں چھین لیں۔ اسرائیل نے تو پہلے حملے میں ہی مصری فضائیہ کے دو سو طیارے رن وے پر کھڑے تباہ کر دیے۔ اس جنگ کا واحد ہیرو ایک پاکستانی پائلٹ سیف الاعظم تھا جس نے اسرائیل کے تین طیارے مار گرائے۔
چوتھی جنگ یومِ کپور ہے جو 1973 میں لڑی گئی۔
اس کے بعد 1979 میں مصر اور اسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ہوا۔ اسی سال اس وقت کے مصری صدر انور السادات اور اسرائیلی وزیرِ اعظم میناہم بیگن کو مصر اور اسرائیل کے درمیان کامیاب امن مذاکرات پر امن کا نوبل انعام بھی ملا۔
اس امن معاہدے کے تحت اسرائیل نے مصر کو صحرائے سینا کا علاقہ واپس کر دیا۔ ساتھ ہی غزہ کی پٹی بھی دینے کے لیے تیار تھا لیکن مصر نے اس دردِ سر کو لینے سے انکار کیا۔ اس معاہدے کی قیمت مصر نے یوں ادا کی کہ ایک سال بعد انور السادات کو اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کرنے پر مصری فوجیوں کے ایک گروپ نے قتل کر دیا۔ اس گروپ کی سربراہی اسلام خالد الاسلامبولی کر رہا تھا۔ اس معاہدے کی وجہ سے باقی عرب ممالک نے مصر کا بائیکاٹ کیا اور اس کی عرب لیگ میں رکنیت معطل کر دی،
اس کے بعد فلسطینی اور اسرائیلی مذاکراتی ٹیموں نے 1993 میں ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں خفیہ مذاکرات کا آغاز کیا، جن کے باعث اسی سال امریکہ میں وائٹ ہاؤس میں پہلے اوسلو معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اسحاق رابین اور یاسر عرفات کو اسرائیلی وزیرِ خارجہ شمعون پیریز کے ہمراہ 1994 میں امن کا نوبل انعام دیا گیا۔
اس معاہدے کے تحت اسرائیل نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کو فلسطینیوں کی نمائندہ جماعت تسلیم کر لیا، جسے وہ پہلے دہشتگرد جماعت قرار دیتے تھے۔ جواب میں PLO نے اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کر لیا، شدت پسندی کا راستہ ترک کرنے کا وعدہ کیا اور اس کے رہنماؤں کی جلاوطنی ختم ہوئی۔ اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینی نیشنل اتھارٹی قائم ہوئی جسے کسی حد تک خودمختاری مل گئی۔ تاہم یہ ایک عارضی معاہدہ تھا جس کے تحت پانچ سال میں ایک مستقل حل نکالا جانا تھا۔
1994 میں اردن اور اسرائیل کے درمیان سرحدی معاہدہ ہوا۔
فلسطینیوں کے ساتھ دوسرا معاہدہ 1995 میں ہونا تھا، لیکن درمیان میں ایک سانحہ پیش آیا جس نے امن کی امید ختم کر دی۔ جس طرح کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی قیمت مصر نے صدر سادات کی قتل کی صورت میں ادا کی تھی، اوسلو معاہدے کی قیمت اسرائیل نے وزیرِ اعظم اسحاق رابین کی جان کی صورت میں ادا کی۔
دائیں بازو کے اسرائیلی شدت پسند اور حماس کی صورت میں فلسطینی شدت پسند اس معاہدے کے سخت مخالف تھے۔ موجودہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے اس وقت دائیں بازو کی قیادت کرتے ہوئے اسحاق رابین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اسرائیلی شہروں میں ایسے پوسٹر چسپاں کیے گئے جن میں اسحاق رابین کو یاسر عرفات جیسے کپڑے پہنائے گئے یا پھر جرمن نازیوں کا یونیفارم پہنے دکھایا گیا۔ اسرائیلی دائیں بازو نے اسحاق رابین کو فلسطینی علاقوں کا کنٹرول چھوڑنے پر رضامندی ظاہر کرنے پر معاف نہیں کیا۔
دوسری جانب حماس نے خودکش حملوں کا آغاز کر دیا کیونکہ ان کے نزدیک یہ معاہدہ ایک ایسی ریاست کے آگے ہتھیار ڈالنے کے مترادف تھا جس کا وجود ہی ان کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔
4 نومبر 1995 کو اسحاق رابین تل ابیب میں ایک لاکھ افراد کے مجمعے کے سامنے امن معاہدے کا دفاع کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے آخری خطاب میں کہا:
’میں 27 سال فوج میں رہا۔ میں اس وقت لڑا جب امن کا امکان نہیں تھا۔ لیکن اب یہ امید ہے اور ہمیں اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ان سب کے لیے جو یہاں موجود ہیں اور ان کے لیے بھی جو یہاں موجود نہیں۔ میرا ماننا ہے کہ لوگوں کی اکثریت امن چاہتی ہے اور وہ امن کے لیے خطرات مول لینے کو تیار ہیں۔‘
مجمعے نے ’شیر لاشالوم‘ کا گیت گانا شروع کیا جو امن کا گیت ہے۔ بعد میں اسحاق رابین کی جیب سے اسی گیت کے شعر ایک کاغذ پر درج ملے جو ان کے خون میں بھیگ چکا تھا۔ اسحاق رابین جیسے ہی اسٹیج سے اترے، ییگال عامر نے ان کی پیٹھ میں دو گولیاں مار دیں۔
اسحاق رابین اسرائیلی لیبر جماعت کے رکن تھے جو دو بار وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔ 1967 کی چھ روزہ جنگ میں اسحاق رابین اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف تھے جس نے عربوں کو شکست دی تھی، لیکن اس کے باوجود اپنی ایک تقریر میں وہ کچھ یوں کہہ رہے تھے:
"میں سیریل نمبر 30743، ریزرو لیفٹیننٹ جنرل اسحاق رابین، اسرائیلی ڈیفنس فورسز کا سپاہی، جس نے فوجیوں کو موت کی جانب بھیجا، آج کہتا ہوں کہ ہم ایک ایسی جنگ کی جانب بڑھ رہے ہیں جس میں کوئی ہلاک نہیں ہوگا، کوئی زخمی نہیں ہوگا، خون نہیں بہے گا، کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ یہ واحد جنگ ہے جس میں شرکت باعثِ افتخار ہے اور وہ امن کی جنگ ہے۔"
آج 30 سال بعد تاریخ پھر اسی دوراہے پر کھڑی ہے۔ یاسر عرفات کو غداری کے طعنے دینے والی حماس اس سے سخت شرائط پر امن معاہدے پر رضامندی ظاہر کر رہی ہے۔ جس نیتن یاہو اور اس کے دائیں بازو نے اسحاق رابین کی ہلاکت پر جشن منایا تھا، وہ آج خود ایک ایسے معاہدے پر دستخط کر رہے ہیں جس میں نہ صرف غزہ کو خالی کرانا ہوگا بلکہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کی راہ ہموار ہوگی۔
اسحاق رابین کے قتل سے تین ہفتے قبل ایک 19 سالہ نوجوان ٹی وی پر آیا اور اس نے کہا:
"ہم اسحاق رابین کی گاڑی تک پہنچ چکے ہیں اور جلد ان تک بھی پہنچ جائیں گے۔"
اس نوجوان کا نام اتمار بن گویر تھا، جو آج اسرائیل میں قومی سلامتی کا وزیر ہے۔ جس نے آج دھمکی دی ہے کہ:
"اگر محاصرے والے علاقے میں قید تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے بعد حماس کو تباہ نہیں کیا گیا تو وہ وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی اتحادی حکومت چھوڑ دیں گے۔"
دوسری جانب اسرائیلی اپوزیشن لیڈر یائر لاپید کا کہنا ہے کہ
“ وہ انتہائی دائیں بازو کے وزراء اتمار بن گویر اور بیزالیل سموتريچ کو ٹرمپ کے معاہدے کو 'ناکام' بنانے نہیں دیں گے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) اور عوام کی اکثریت ٹرمپ کے معاہدے کی حمایت کرتی ہے۔"
اب جب امن معاہدہ قریب ہے ، برطانیہ جیسا ملک فلسطین ریاست کو تسلیم کرچکا ہے ، برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں ایک شامی مسلمان نے یہودیوں کے مقدس دن “ یوم کپور “ پر اپنی گاڑی ایک یہودی عبادت گاہ پر چڑھا دی جس میں دو بندے مارے گئے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں کسی دوسرے قوم اور مذہب کا انتہا پسند زہر لگتا ہے، اپنے والوں کو پھر سر پر بٹھا دیتے ہیں ان کو ہیرو بنا دیتے ہیں۔
واپس کریں