دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
غزہ امن منصوبے کا اعلان ۔طاہر سواتی
No image صدر ٹرمپ نے نوبل انعام سے آٹھ دن قبل، اسرائیلی وزیر اعظم کے دورہ واشنگٹن کے دوران، غزہ امن منصوبے کا اعلان کر دیا۔اس موقع پر اسرائیلی وزیر اعظم نے قطر کے امیر کو فون کرکے حالیہ حملے پر اس سے معافی مانگ لی۔ قطر نے اس معافی کو قبول کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ میں اپنی مصالحتی کوششوں کو دوبارہ جاری رکھنے کا اعلان کر دیا۔ اس موقع پر صدر ٹرمپ نے خصوصی طور پر پاکستانی وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل کا ذکر کیا، جو ان کی امن کوششوں کی تعریف کرتے ہیں۔ یہ مودی کی کرم فرمائی ہے کہ آج پاکستان کو ایک ایسے بین الاقوامی مسئلے میں مرکزی کردار دیا جا رہا ہے جس کے ایک فریق کو وہ سرے سے تسلیم ہی نہیں کر رہا۔
اس منصوبے کے نکات کچھ یوں ہیں:
1. غزہ کو دہشت گردی سے پاک علاقہ بنایا جائے گا، جس سے ہمسایہ ممالک کو کوئی خطرہ نہ ہو۔
2. غزہ کی دوبارہ تعمیر و ترقی شروع کی جائے گی، تاکہ ان عوام کو ریلیف فراہم کیا جا سکے جنہوں نے اب تک بہت مصائب برداشت کیے ہیں۔
3. اگر دونوں فریق اس تجویز پر متفق ہو جائیں تو جنگ فوراً بند ہو جائے گی۔ اسرائیلی افواج قیدیوں کی رہائی کی تیاری کے لیے طے شدہ لائن تک واپس چلی جائیں گی۔ اس دوران تمام فوجی کارروائیاں، بشمول فضائی و توپ خانے کی گولہ باری، اس وقت تک معطل رہیں گی جب تک مکمل مرحلہ وار انخلا کے لیے شرائط پوری نہیں ہو جاتیں۔
4. اسرائیل کی جانب سے معاہدے کی منظوری کے 72 گھنٹوں کے اندر، تمام زندہ مغوی یا مرنے والوں کی باقیات واپس کی جائیں گی۔
5. جب تمام مغوی رہا کر دیے جائیں گے تو اسرائیل 250 عمر قید یافتہ قیدیوں کے علاوہ ان 1700 غزہ کے باشندوں کو بھی رہا کرے گا جو 7 اکتوبر 2023 کے بعد گرفتار کیے گئے تھے، بشمول تمام خواتین اور بچے۔ ہر اسرائیلی مغوی کی باقیات کے بدلے، اسرائیل 15 جاں بحق غزہ کے شہریوں کی باقیات واپس کرے گا۔
6. جب تمام مغوی واپس کر دیے جائیں گے، تو حماس کے وہ اراکین جو امن پر عمل پیرا ہونے اور اپنے ہتھیار جمع کروانے پر رضامند ہوں گے، انہیں عام معافی دی جائے گی۔ جو حماس اراکین غزہ چھوڑنا چاہیں گے، انہیں محفوظ راستہ اور پناہ گزینوں کو قبول کرنے والے ممالک تک پہنچنے کی اجازت ہوگی۔
7. معاہدے کی منظوری کے ساتھ ہی مکمل انسانی امداد فوری طور پر غزہ پٹی میں داخل کی جائے گی۔ امداد کی کم از کم مقدار 19 جنوری 2025 کے معاہدے کے مطابق ہوگی، جس میں بنیادی ڈھانچہ (پانی، بجلی، نکاسی)، اسپتالوں اور بیکریوں کی بحالی، ملبہ ہٹانے اور سڑکیں کھولنے کے لیے ضروری سامان کی فراہمی شامل ہے۔
8. دونوُں فریقوں کی مداخلت کے بغیر غزہ میں امداد کی تقسیم کا عمل صدر اقوام متحدہ اور اس کی ایجنسیوں، ریڈ کریسنٹ، اور دیگر غیر جانبدار بین الاقوامی اداروں کے ذریعے انجام پائے گا۔ رفح کراسنگ کا دونوں سمتوں میں کھلنا 19 جنوری 2025 کے معاہدے کے تحت نافذ میکانزم کے مطابق ہوگا۔
9. غزہ کو ایک عارضی عبوری حکومت کے تحت چلایا جائے گا، جو ایک تکنیکی، غیر سیاسی فلسطینی کمیٹی پر مشتمل ہوگی، جو پبلک سروس اور بلدیاتی امور کی نگرانی کی ذمہ دار ہوگی۔ یہ کمیٹی اہل فلسطینیوں اور بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل ہوگی، جس کی نگرانی ایک نئے بین الاقوامی عبوری ادارے "بورڈ آف پیس" کے زیر انتظام ہوگی، جس کی صدارت صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کریں گے، جبکہ دیگر اراکین اور سربراہان مملکت (جن میں سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر بھی شامل ہوں گے) بعد میں اعلان کیے جائیں گے۔ یہ ادارہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے فریم ورک تیار کرے گا اور فنڈنگ سنبھالے گا، یہاں تک کہ فلسطینی اتھارٹی اپنے اصلاحی پروگرام کو مکمل کر لے، جیسا کہ 2020 میں صدر ٹرمپ کے امن منصوبے اور سعودی-فرانسیسی تجویز میں بیان کیا گیا، تاکہ وہ مؤثر اور محفوظ انداز میں غزہ کا انتظام دوبارہ سنبھال سکے۔ یہ ادارہ جدید اور مؤثر طرز حکومت قائم کرنے کے لیے بین الاقوامی بہترین معیارات کو اپنائے گا جو غزہ کے عوام کی خدمت کرے گا اور سرمایہ کاری کو راغب کرے گا۔
10. صدر ٹرمپ کا ایک خصوصی معاشی ترقیاتی منصوبہ تیار کیا جائے گا، تاکہ غزہ کو دوبارہ تعمیر کر کے فعال بنایا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے مشرق وسطیٰ کے جدید ترقی یافتہ شہروں کی تشکیل میں مدد کرنے والے ماہرین کا پینل تشکیل دیا جائے گا۔ بہت سے بین الاقوامی اداروں نے غزہ کی ترقی کے لیے سرمایہ کاری کی تجاویز پیش کی ہیں، جس سے امن، تعمیر و ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
11. ایک خصوصی معاشی زون قائم کیا جائے گا۔
12. کسی کو بھی غزہ چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا، اور جو چھوڑنا چاہیں گے وہ جانے اور واپس آنے میں آزاد ہوں گے۔ ہم لوگوں کو غزہ میں رہنے کی ترغیب دیں گے اور انہیں ایک بہتر غزہ تعمیر کرنے کا موقع فراہم کریں گے۔
13. حماس اور دیگر دھڑے اس بات پر متفق ہوں گے کہ وہ کسی بھی صورت، براہ راست یا بالواسطہ، غزہ کی حکومت میں کوئی کردار ادا نہیں کریں گے۔ تمام عسکری، دہشت گردانہ اور جارحانہ ڈھانچے، بشمول سرنگیں اور اسلحہ سازی کی فیکٹریاں، تباہ کر دی جائیں گی اور دوبارہ تعمیر نہیں کی جائیں گی۔ غزہ کے غیر مسلح ہونے کا ایک عمل شروع کیا جائے گا، جو آزاد مبصرین کی نگرانی میں ہوگا۔ اس میں ہتھیاروں کو مستقل طور پر ناقابل استعمال بنانا شامل ہے۔ نیا غزہ ایک خوشحال معیشت اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کے اصولوں پر قائم ہوگا۔
14. منصوبے میں شامل ممالک اس بات کی ضمانت دیں گے کہ حماس اور دیگر دھڑے اپنی ذمہ داریوں پر عمل کریں اور نیا غزہ اپنے ہمسایوں یا اپنے عوام کے لیے خطرہ نہ بنے۔
15. امریکہ عرب اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایک عارضی بین الاقوامی استحکام فورس (ISF) قائم کرے گا، جو فوری طور پر غزہ میں تعینات ہوگی۔ یہ فورس تربیت یافتہ فلسطینی پولیس فورسز کو تربیت اور معاونت فراہم کرے گی، اور اردن و مصر سے مشاورت کرے گی، جنہیں اس میدان میں وسیع تجربہ حاصل ہے۔ یہ فورس غزہ میں داخلی سلامتی کا طویل المدتی حل ہوگی۔ ISF اسرائیل اور مصر کے ساتھ مل کر سرحدی علاقوں کی حفاظت میں مدد کرے گی، اور غزہ میں اسلحہ کی اسمگلنگ روکنے کے ساتھ ساتھ تعمیر نو کے لیے سامان کی محفوظ اور تیز تر آمدورفت کو یقینی بنائے گی۔ فریقین کے درمیان ایک تصادم سے بچاؤ کا نظام طے کیا جائے گا۔
16. اسرائیل نہ تو غزہ پر قبضہ کرے گا اور نہ ہی اسے اپنے ساتھ ملائے گا۔ جیسے جیسے ISF کنٹرول اور استحکام قائم کرے گی، اسرائیلی دفاعی افواج (IDF) مرحلہ وار انخلا کریں گی۔ یہ انخلا طے شدہ طریقہ کار کے تحت ہوگا، جو IDF، ISF، ضامن ممالک اور امریکہ کے درمیان طے کیا جائے گا، تاکہ ایک محفوظ غزہ قائم کیا جا سکے جو اسرائیل، مصر یا ان کے شہریوں کے لیے خطرہ نہ ہو۔ عملی طور پر، IDF اپنے زیر قبضہ غزہ کے علاقوں کو ISF کے حوالے کرے گی، عبوری اتھارٹی کے ساتھ طے شدہ معاہدے کے مطابق، یہاں تک کہ وہ مکمل طور پر واپس چلی جائے، سوائے ایک حفاظتی پٹی کے، جو اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک غزہ مکمل طور پر کسی بھی ممکنہ دہشت گرد خطرے سے محفوظ نہ ہو جائے۔
17. اگر حماس اس تجویز کو مؤخر یا مسترد کرتی ہے، تو اوپر دیے گئے تمام اقدامات، بشمول توسیع شدہ امدادی کارروائیاں، ان علاقوں میں جاری رہیں گی جو دہشت گردی سے پاک قرار دے کر IDF سے ISF کو منتقل کیے جائیں گے۔
18. ایک بین المذاہب مکالمہ کا عمل قائم کیا جائے گا، جو رواداری اور پرامن بقائے باہمی کی اقدار پر مبنی ہوگا، تاکہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے ذہنوں اور بیانیوں میں تبدیلی لائی جا سکے اور امن سے حاصل ہونے والے فوائد کو اجاگر کیا جا سکے۔
19. جب غزہ کی تعمیر نو آگے بڑھے گی اور فلسطینی اتھارٹی کا اصلاحی پروگرام مخلصانہ طور پر نافذ ہو جائے گا، تو فلسطینی خود ارادیت اور ریاست کے قیام کے لیے ایک قابل اعتماد راستہ فراہم کرنے کی شرائط آخرکار پوری ہو جائیں گی، جو فلسطینی عوام کی دیرینہ خواہش ہے۔
20. امریکہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مکالمے کا آغاز کرے گا، تاکہ امن اور خوشحال بقائے باہمی کے لیے اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے تو منصوبے کو قبول کر لیا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی نے منصوبے کا خیرمقدم کیا ہے۔
قطر نے اور مصر نے منصوبہ باقاعدہ طور پرُ حماس کو پیش کیا ہے۔ اگر حماس نے بھی یہ منصوبہ منظور کر لیا تو اس سے نہ صرف غزہ کے عوام کو فوری ریلیف مل جائے گا، بلکہ دو ریاستی حل کی امید بھی پیدا ہو گی۔
ترکیُ کے صدر طیب اردگان نے منصوبے کو سراہا ہے ، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، پاکستان، ترکیہ، سعودی عرب، قطر اور مصر کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہُ بیان میں اس کا خیر مقدم کیا ہے۔
ویسے ہمارے مولوی تو اسے کبھی قبول نہیں کریں گے۔ مفتی تقی عثمانی پہلے ہی اسے رد کر چکے ہیں۔ ناچو قبیلے کو ٹھمکے لگانے کے لئے محض بہانہ چاہیے، حالانکہ ان کا لیڈر، بحیثیت وزیر اعظم، دو ریاستی حل پر بار بار زور دیتا رہا ہے۔ عربوں سمیت دنیا کے 150 ممالک اس کے حامی ہیں۔
آج سے سو سال قبل، یہودی عربوں کی مرضی کے مطابق دو ریاستی حل کے لیے منتیں کرتے رہے، آج عرب اسرائیلی شرائط پر اس منصوبے کو اپنی سب سے بڑی کامیابی سمجھ رہے ہیں۔
جذباتی پاکستانی پوچھ رہے ہیں کہ کیا حماس ایسے منصوبے کو قبول کر لے گا جس سے اس کا وجود ہی ختم ہو جاتا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ جب ہم دو ریاستی حل کی مخالفت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ اسرائیل پورا علاقہ عربوں کے حوالے کر دے، تو کیا اسرائیل ہمارے ایسے مطالبے کو مان لے گا جس سے اس کا وجود ہی ختم ہو ؟
واپس کریں