دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ٹرمپ کا امن پلان نوآبادیاتی تسلط اور سامراجی بربریت ۔عمار علی جان
No image ٹرمپ کا امن پلان نوآبادیاتی تسلط اور سامراجی بربریت کی بدترین مثال ہے۔ 2 سال سے جاری نسل کشی کے بعد صہونی قوتوں کو مسلسل اسلحہ فراہم کیا گیا، جنگ کا دائرہ کار وسیع کرکے 7 ممالک پر حملے کئے گئے، جبکہ اسرائیلی مخالف مظاہرین پر مغربی ممالک میں ہر جمہوری قدر کو پامال کرتے ہوئے جبر کیا گیا۔ اس سب کے بعد جب عالمی رائے عامہ اسرائیل کے خلاف ہوگئی ہے اور ایک فلوٹیلا 40 ممالک کے نمائندگان کو لے کر غزہ کی طرف بڑھ رہی ہے، ٹرمپ نے امن معادے کا اعلان کردیا یے۔ اس معادے میں میں نسل کش ریاست کا احتساب کرنے کے بجائے تمام معاملات کو ان کے تحفظات اور سیکیورٹی زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ دوسری جانب تمام فلسطینی مزاحمت کاروں کے لئے حکم صادر کیا گیا ہے کہ وہ اپنا اسلحہ ایک انٹرنیشنل فورس کے حوالے کردیں۔ ذرا سوچیں اگر دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے خلاف جنگ کرنے کے بجائے یہ بات کی جاتی کہ کس طرح ہم ہٹلر کے تحفظات کو سامنے رکھ کر امن پلان بنائیں؟ آج کے ہٹلر یعنی نیتن یاہو کے لئے یہ سامراجی پلان بنایا گیا ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پلان میں فلسطین کی ریاست کے قیام کا کوئی واضح روڈ میپ نہیں دیا گیا۔ یہ فراڈ فلسطین کے ساتھ 1993 کے آسلو معادے سے جاری ہے جہاں مزاحمت کاروں کی عسکری قوت بھی ختم کردی گئی جبکہ اس کے بعد اسرائیل نے نہ فلسطین کا قبضہ چھوڑا اور نہ ہی قتل و غارت گری ختم کی۔ 2006 میں ایک جمہوری انتخابات میں جب عوام نے حماس کو ووٹ دیا تو اس کے فورا بعد پابندیوں اور بمباری کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جو آخر کار نسل کشی پر ختم ہوا۔ اس لئے یہ جنگ کسی ریاست یا گروہ کے خلاف نہیں بلکہ فلسطینی عوام کے خلاف ہے جو کسی بھی صورت میں صہونی بالادستی کو اپنا مقدر تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اور اب غزہ کی کمان ٹونی بلئیر جیسے ایک جنگی مجرم کے حوالے کرنے کی تیاری کی جارہی ہے جس نے جارج بش کے ساتھ مل کر عراق کو تباہ کیا اور مشرقی وسطٰی میں موجودہ عدم استحکام کی بنیاد رکھی۔
ہمارے لئے باعث شرم ہے کہ اس پلان کا باقاعدہ اعلان ایک چاپلوسی سے بھرپور ٹویٹ میں وزیراعظم شہباز شریف نے کیا۔ ٹرمپ کی تعریف کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ انہیں اس پلان سے مکمل اتفاق ہے، یعنی جس پلان میں فلسطین کی ریاست کے لئے کوئی روڈ میپ ہی موجود نہیں، اس پر اتفاق کرلیا۔ یہ بات درست ہے کہ نو آبادیاتی تسلط موجودہ نسل کشی سے بہتر ہے۔ لیکن اس معادے کی تفصیلات پارلیمنٹ تو دور کی بات، ن لیگ کے اپنے قاعدین کو بھی معلوم نہ تھیں۔ اگر اس طرح فوج غزہ بھیج دی گئی اور اس کا تضاد مقامی مزاحمت کاروں سے بن گیا، تو کیا ہمارے فوجی ٹونی بلئیر کی قیادت اور نیٹن یاہو کی مشاورت سے غزہ کے عوام پر بمباری کریں گے؟ فلسطین کے کن نمائندوں سے گفتگو ہوئی ہے اور کل کو کوئی سنگین صورتحال سے نمٹنے کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ اسرائیل نے امریکی کالونی قطر پر بھی حملہ کردیا۔ اگر اسرائیل پاکستانی فوجیوں کی موجودگی میں غزہ پر حملہ کردے، تو ہمارا رد عمل کیا ہوگا؟ کیا معدنیات کی ڈیل کا اس معادے سے کوئی تعلق ہے؟ ان سوالات کا جواب دئے بغیر ایک سامراجی پلان میں کود پڑنا ڈالری جنگوں کی لالچ ہی محسوس ہورہی یے۔
مسلمان حکمرانوں کی دوغلی پالیسی سے زیادہ بھروسہ مجھے نیتن یاہو کی جنونیت پر ہے۔ اس کے لئے ممکن ہی نہیں کہ وہ فلسطینی، عربی یا کسی مسلمان کو صہونیوں کے برابر سمجھے۔ اگر حماس بھی اس پلان کو تسلیم کرلے، تو بھی زیادہ دیر امن قائم نہیں رہ سکے گا۔ اسرائیل کی توسیع پسندی ہر معادے کو ناکام کرے گی کیونکہ خطے میں اتحاد اور امن میں اس کو اپنی موت نظر آتی یے۔ اصل سوال ہمارے حکمرانوں سے ہے جو فاٹا سے لے کر حرمین شریف اور بلوچستان سے لے کر بیت المقدس تک ہر جگہ کرائے کے بدمعاشوں کے طور پر استعمال ہونے کے لئے تیار ہیں۔ عسکری صلاحیت ایک ملک کو یہ موقع دیتی یے کہ بیرونی خدشات سے گھبرائے بغیر صنعت کاری پر زور دیا جائے تاکہ سماج میں معاشی خوشحالی قائم ہوسکے۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمران عسکری صلاحیت کو ہی بزنس بنا لیتے ہیں جن کی وجہ سے وار انڈسٹری کے علاوہ تمام انڈسٹری پیچھے رہ جاتی ہیں۔
پاکستان عوام ان حالات میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ دوسری جانب یہ واضح ہوگیا ہے کہ امریکی کے قریب جانے کا مطلب جنگ میں کودنا ہے۔ جو لبرل آج بھی امریکہ کے حق میں بیانات دے رہے ہیں انہیں کچھ شرم کرنی چاہئے۔ امریکہ ہمیں اپنے ہی خطے سے لڑوانے کی پلاننگ کررہا ہے اور چند ارسطو یہ سوچ بیٹھے ہیں کہ وہ چین اور امریکہ دونوں کو پاگل بنا لیں گے۔ لیکن دو کشتیوں میں سوار مسافر ڈوب جاتے ہیں۔ جن کے ملک سے باہر پاپا جونز ہیں وہ معاشرے کو ڈبونے سے نہیں ڈرتے۔ اس کو بچانے کی ذمہ داری عوام کو ہی لینا ہوگی۔ اور اس عوامی مزاحمت کا بنیادی جز امریکی-اسرائیل گٹھ جوڑ اور اس کے مقامی سہولت کاروں کے خلاف بغاوت اور فلسطین کے عزیم عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی ہوگا۔
واپس کریں