
امریکی صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی ملاقات میں ٹرمپ کے اکیس نکاتی امن منصوبے پر بات ہوئی۔ اس منصوبے میں شامل ہے کہ 48 گھنٹوں کے اندر اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدی رہا کیے جائیں، حماس کو غیر مسلح کیا جائے اور غزہ کی انتظامیہ میں اس کا کوئی کردار نہ ہو۔ غزہ سے جبری انخلاء نہ کرایا جائے، اسرائیلی حملے روکے جائیں، مقبوضہ علاقے چھوڑے جائیں اور دوبارہ قبضہ نہ کیا جائے۔ اسرائیل قطر پر مزید حملے نہ کرے اور اس حوالے سے یقین دہانی کرائی جائے۔ فلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات کی جائیں اور غزہ کے لیے عبوری حکومت قائم کی جائے۔ غزہ میں اقتصادی ترقی کے مواقع پیدا کیے جائیں اور امریکہ سمیت علاقائی طاقتیں اس کی سلامتی کی ضمانت دیں۔
اس موقع پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے دوحہ پر فضائی حملے پر قطر کے وزیراعظم محمد بن عبدالرحمان آل ثانی سے فون پر معذرت کی۔ اسرائیلی اخبار کے مطابق نیتن یاہو کی معذرت کا قطری وزیراعظم نے خیر مقدم کیا۔ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے بھی صدر ٹرمپ کے منصوبے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے لیے فلسطینی عوام اور اسرائیل کے درمیان پائیدار امن ناگزیر ہے۔
صدر ٹرمپ نے اسرائیل اور قطر کے تعلقات کو مثبت سمت میں لے جانے کی خواہش ظاہر کی۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق اسرائیل اور قطر کے وزرائے اعظم نے سہ فریقی میکنزم پر اتفاق کیا۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر نے ان کے امن منصوبے کی سو فیصد حمایت کی ہے۔ انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا کہ مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے یہ تاریخی دن ہے۔ ہم غزہ امن معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عرب اور یورپی رہنماؤں نے بھی منصوبے کی حمایت کی ہے اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بھی اس مجوزہ معاہدے کو تسلیم کیا ہے۔
ٹرمپ کے مطابق حماس بھی مسئلہ حل کرنا چاہتی ہے۔ حماس کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد تمام یرغمالی رہا ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حماس منصوبے کو نہ مانے تو اسرائیل اپنی مرضی کے مطابق قدم اٹھائے گا۔ منصوبے کے تحت غزہ کو غیر فوجی علاقہ بنایا جائے گا اور نئی حکومت فلسطینیوں اور دنیا بھر کے ماہرین پر مشتمل ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ غزہ جنگ کا خاتمہ مشرق وسطیٰ کے امن کے بڑے وڑن کا ایک حصہ ہے۔ ٹرمپ کے بقول اس منصوبے کے تحت غزہ اتھارٹی کے صدر وہ خود ہوں گے اور ٹونی بلیئر وزیراعظم ہوں گے۔ ٹرمپ کی سربراہی میں امن کونسل عبوری انتظامیہ تشکیل دے گی اور "بورڈ آف پیس" جنگ کے بعد غزہ کی عارضی حکمرانی سنبھالے گا۔ غزہ کی نئی انتظامیہ میں حماس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔
ٹرمپ نے مزید کہا کہ اگر حماس 72 گھنٹوں میں منصوبے کو تسلیم کرے تو اسرائیلی یرغمالی فوری طور پر رہا ہو جائیں گے۔ فلسطینی اپنی تقدیر اپنے ہاتھ میں لینے کا موقع حاصل کریں۔ بصورت دیگر فلسطینی اتھارٹی خود ذمے دار ہوگی۔ حماس رہنماؤں نے کہا ہے کہ انہیں یہ منصوبہ تاحال تحریری صورت میں موصول نہیں ہوا۔ ملنے پر ردعمل دیا جائے گا۔
امن منصوبے پر عالمی سطح پر بحث جاری ہے۔ کئی نکات ایسے ہیں جن پر فریقین کا اتفاق ممکن ہے اور کچھ نکات ایسے ہیں جو کسی ایک فریق کے لیے ناقابل قبول ہوں گے۔ مذاکرات ہوں گے تو کچھ دو اور کچھ لو کے اصول پر اتفاق رائے پیدا ہو سکتا ہے۔
اس دوران بھی اسرائیلی جارحیت جاری رہی جب ٹرمپ منصوبے کے نکات پر بات کر رہے تھے۔ بمباری میں درجنوں فلسطینی شہید ہوئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔کئی افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
آج کی صورتحال میں فوری جنگ بندی کی ضرورت ہے۔ صدر ٹرمپ اپنے نکات پر فوری عملدرآمد چاہتے ہیں لیکن یہ نکات ابھی تک حماس کو تحریری شکل میں نہیں دیے گئے۔ فلسطین کی موجودہ حالت میں دو ریاستی حل پر بحث جاری ہے۔ ٹرمپ کے مطابق نیتن یاہو نے دو ریاستی حل کی مخالفت کی ہے۔ فلسطینی عوام بھی اس حل کو آسانی سے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے لیکن امن کی خاطر وہ کڑوا گھونٹ بھرنے پر تیار ہو گئے۔ چونکہ ٹرمپ کے امن منصوبے کو اسرائیل نے قبول کیا ہے اس لیے اس سمت میں مزید پیش رفت کی جا سکتی ہے۔
صدر ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل اور تمام مسلم ممالک نے انہیں "بورڈ آف پیس" کا سربراہ تسلیم کر لیا ہے۔ان کی طرف سے مزید بھی کئی دعوے کیے گئے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کی طرف سے امن نکات کی 100 فیصد حمایت کی گئی ہے۔ ایسے دعوؤں کی حقیقت کا تعین متعلقہ حکومتوں کی طرف سے ہی کیا جا سکتا ہے۔
گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم کرنا عالمی قوانین کے برعکس ہے اور اس کے بفر زون کو خالی کرانا عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔بفر زون پر قبضہ اسرائیل کی طرف سے حالیہ مہینوں میں کیا گیا ہے جو 1974ء کے معاہدے کی خلاف ورزی ہے جبکہ گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ اسرائیل نے 1967ء کی جنگ کے دوران کیا تھا۔
قطر اپنے موقف پر قائم رہا تو اسرائیل کو معافی مانگنی پڑی۔ اگر مسلم دنیا متحد ہو جائے اور فلسطینی عوام کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہو تو فلسطین کے حق میں بہتر نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔ صدر ٹرمپ ایک طاقتور شخصیت ہیں اور مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنے کے لیے کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ان کی غیر جانبداری لازمی ہے۔ ایک طرف وہ امن منصوبہ پیش کر رہے ہیں اور دوسری طرف حماس کو دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔ اب جو عبوری سیٹ اپ سامنے لایا جا رہا ہے اس میں بھی حماس کو شامل نہیں کیا گیا۔ شرائط میں حماس کو غیر مسلح کیا جانا بھی شامل ہے۔ایسی شرط کیا اسرائیل کے لیے بھی ہوگی؟ٹرمپ کی ثالثی تب ہی کامیاب ہو سکتی ہے جب وہ اسرائیل کی طرح فلسطینیوں کے لیے بھی قابلِ قبول ہوں۔لہذا صدر ٹرمپ کو غیر جانبدار ہونا ہوگا۔
واپس کریں