دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سیاسی اشرافیہ کا مشترکہ دشمن
No image مہذب اور جمہوری ممالک میں اگر دس افراد بھی پلے کارڈ اٹھا کر سڑک کے ایک جانب فٹ پاتھ پر کھڑے ہو جائیں تو حکومت توجہ دیتی ہے، ان مٹھی بھر مظاہرین کے مطابات کو سنتی ہے اور انہیں حل کرتی ہے اسی طرح اگر ہمارے ہاں لاکھوں افراد اپنے مطالبات کے حل کے لیئے پلے کارڈز اٹھا کر کسی سڑک کے ایک جانب شرافت سے کھڑے ہو جائیں تو کئی ماہ گزرنے کے باوجود حکومت کی جانب سے ان مظاہرین کے پاس آ کر رکے گا بھی نہیں،اسلام آباد،کوئٹہ، پشاور،کراچی اور لاہور میں ہم نے ایسے ہوتے ہوئے کئی مرتبہ دیکھا ہے کہ دور دراز علاقوں سے آئے سینکڑوں متاثرہ افراد اپنے حقوق اور مطالبات کے حل کے لیئے آئے اور کئی ہفتے گزرنے کے بعد مایوس ہو کر واپس چلے گئے،کسی ریاستی ادارے نے ان سے آنے کی وجہ بھی نہیں پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ ان متاثرہ مظاہرین کو ملک دشمن اور بیرونی ایجنڈے پر کام کرنے کا سرٹیفیکیٹ دے دیا گیا۔
یہ گزارش ان کااخباری اور فیس بکی دانشوروں کی خدمت میں پیش کی ہے جو آذاد کشمیر جوائنٹ ایکشن عوامی کمیٹی کو ”پرامن“رہ کر حکومت سے بات چیت کرنے کے مشورے دے رہے ہیں جبکہ ایکشن کمیٹی گزشتہ دو سال سے اپنے جائز مطالبات کے لیئے بار بار حکومت سے اپیلیں کیئے جا رہی ہے اور اب تھک ہار کر سڑکوں پر احتجاج کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
اس وقت آذاد کشمیر کے تمام روائیتی سیاسی لیڈران آذاد کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی مخالفت میں ”اتحاد“ بنا کر ایک جانب کھڑے ہیں اور دوسری جانب انہی تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنان بلا تخصیص اور اپنے سیاسی لیڈران سے لاتعلق ہو کر ایکشن کمیٹی کی حمایت میں ایک جانب کھڑے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ آذاد کشمیر کے سیاسی لیڈران کے مشترکہ دشمن اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والے ریاست کے عوام بن چکے ہیں۔
آخر میں عرض کروں گا کہ اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے والوں کو کسی”بیرونی ایجنڈے“ پر کام کرنے والے چورن کا اب کوئی خریدار نہیں رہا،وقت بدل گیا ہے اور نوجوان نسل کے ساتھ ساتھ پرانی عمر کے لوگوں کی سوچ میں بھی تبدیلی رونماء ہو چکی ہے۔ اپنے مفادات کے تحفظ میں اتحاد بنانے والی سیاسی اشرافیہ کو یہ بات اور حقیقت بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ٹیکنالوجی اور وقت سب کچھ بدلنے کی صلاحیت دکھاتا ہے۔
حکیم اسلام قاری محمد طبات قاسمی ؒ نے فرمایا ”سو برس میں ایک نسل ختم ہو کر دوسری نسل کا آغاز ہو جاتا ہے اور آئندہ آنے والی نسل کے نظریات الگ ہوتے ہیں، افکار الگ ہوتے ہیں، نفسیات الگ ہوتے ہیں۔ اس لئے ضرورت پڑتی ہے کہ اسی دور کے اہل علم اپنی نفسیات میں ان کو دین سمجھانے والے ہوں۔ اس لئے اللہ نے موت کو رکھا، تاکہ نئے لوگ جب آئیں تو نئے مجدد بھی پیدا ہوں۔
واپس کریں