اقوام متحدہ گذشتہ 80 سال میں اپنے مقاصد سے دور ہو گئی ہے۔امریکی محکمہ خارجہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیراعظم محمد شہباز شریف کے مابین وائیٹ ہاؤس میں اہم اور طویل ملاقات ہوئی جس میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر بھی وزیراعظم کے ہمراہ تھے۔ اس ملاقات میں میڈیا کو مدعو نہیں کیا گیا۔ یہ امریکی صدر اور وزیراعظم پاکستان کے مابین پہلا باضابطہ رابطہ تھا جبکہ اس سے قبل وائیٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے مابین بھی باضابطہ ملاقات ہو چکی ہے۔ گذشتہ روز کی ملاقات کے حوالے سے وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے جاری کئے گئے اعلامیہ کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف پاکستانی وفد کے ہمراہ واشنگٹن کے اینڈریو ائر بیس پہنچے تو ان کا امریکی ائیر فورس کے اعلیٰ عہدے دار نے ریڈ کارپٹ پر استقبال کیا۔ وزیراعظم کا موٹر کیڈ امریکی سکیورٹی کے حصار میں ائر بیس سے روانہ ہوا۔ ملاقات سے قبل امریکی صدر ٹرمپ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاکستان کے عظیم رہنما آ رہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف شاندار اور فیلڈ مارشل عاصم منیر بہترین شخصیت کے مالک ہیں اور دونوں عظیم رہنما ہیں۔
وائیٹ ہاؤس میں ہونے والی اس خصوصی ملاقات میں مسئلہ کشمیر، علاقائی اور عالمی صورت حال اور دیگر امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات میں باہمی تجارت بڑھانے اور معدنیات کے حوالے سے تعاون بھی زیر بحث آیا اور غزہ اور کشمیر کے معاملات پر بھی بات ہوئی۔ علاوہ ازیں امریکی محکمہ خارجہ کی اردو ترجمان مارگریٹ میک لاڈ نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ گذشتہ 80 سال میں اپنے مقاصد سے دور ہو گئی ہے۔ مسئلہ کشمیر پر امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس مسئلہ پر شملہ معاہدے کے تحت مذاکرات ہونے چاہئیں۔ صدر ٹرمپ کو جنوبی ایشیا میں امن قائم کرنے پر فخر ہے اور انہیں امید ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین امن کی فضا برقرار رہے گی۔ اس حوالے سے مارگریٹ لاڈ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ اقوام متحدہ اپنے چارٹر کے مطابق امن، خود مختاری اور آزادی کو سر فہرست رکھے۔ امریکہ ایسی اقوام متحدہ چاپتا ہے جو ہر رکن کی خود مختاری کا احترام کرے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ مسلمان ممالک کے ساتھ مل کر غزہ میں بہتری کے لیئے کوشاں ہے تاہم امریکہ مشرق وسطیٰ کے مستقبل میں حماس کا کوئی کردار نہیں دیکھتا۔ حماس کو ہتھیار ڈالنا اور تمام یرغمالیوں کو رہا کرنا ہو گا۔ ان کے بقول پاک امریکہ تعلقات مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بعد ازاں صدر ترکیہ رجب طیب اردوان سے بھی وائیٹ ہاؤس میں ملاقات کی اور دوران ملاقات ان کی تعریفوں کے پْل باندھ دیئے اور انہیں بہترین اور مضبوط شخص قرار دیا۔ انہوں نے صدر اردوان کو روس سے تیل اور گیس کی خریداری ترک کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ یوکرائن جنگ کے معاملہ پر اردوان یہی بہترین کام کر سکتے ہیں۔
بے شک اس وقت دنیا روس یوکرائن جنگ، غزہ اور دوسرے مسلمان ممالک میں اسرائیلی بربریت اور کشمیر پر بھارتی ناجائر تسلط اور اس کے توسیع پسندانہ عزائم کے باعث اضطراب کی کیفیت میں ہے اور کسی بھی وقت عالمی ایٹمی جنگ شروع ہونے کا خطرہ لاحق ہے جو بالآخر دنیا کی تباہی پر ہی منتج ہوگا۔ یہ خطرہ اس لئے بھی بڑھ رہا ہے کہ نمائیندہ عالمی ادارہ اقوام متحدہ عالمی اور علاقائی مسائل کے حل کے معاملہ میں قطعی غیر موثر ہوچکا ہے جسے ویٹو پاور رکھنے والے اس کے مستقل رکن ممالک نے موم کی ناک بنا رکھا ہے اور وہ اپنی مرضی کے منافی کسی بھی علاقائی یا عالمی تنازعہ کے حل کے لیئے پیش ہونے والی کسی قرارداد کی منظوری کی نوبت ہی نہیں آنے دیتے۔ اس کے باعث جارحیت پسند اور توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والے ممالک کے حوصلے اور بھی بلند ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح ایٹمی کلب کے رکن ممالک نے بھی، جن کی اکثریت سلامتی کونسل کی مستقل رکن بھی ہے، اقوام متحدہ کو عملاً یرغمال بنا رکھا ہے چنانچہ ان ممالک کے دنیا پر غلبہ پانے والے عزائم نے طاقت کا توازن بگاڑ کر رکھ دیا ہے اور اقوام متحدہ کے پر امن بقائے باہمی والے فلسفہ کے برعکس جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا فلسفہ غالب ہوتا نظر آرہا ہے۔ بھارت کا توسیع پسندانہ عزائم والا اپنا ایجنڈہ ہے جو ہندو انتہا پسندی پر مبنی ہے اور اس نے اپنے اکھنڈ بھارت کے فلسفے کے تحت آج تک پاکستان کو ایک آزاد اور خود مختار ملک کے طور پر قبول ہی نہیں کیا اور وہ پاکستان کی سلامتی ختم کرنے کی سازشوں میں میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے۔ اسی بنیاد پر بھارت نے کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا، اس پر اپنی افواج کے ذریعے غاصبانہ قبضہ کیا اور اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دے کر کشمیر کا تنازعہ کھڑا کیا اور پاکستان پر تین جنگیں مسلط کر کے اسے سانحہ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کیا جبکہ وہ پاکستان پر آبی دیشت گردی کا بھی مرتکب ہوتا رہتا ہے اور اپنے تربیت یافتہ دہشت گرد بھی پاکستان میں داخل کرکے اس کی سلامتی کو چیلنج کرتا ہے۔
پاکستان نے ان بھارتی سازشوں اور عزائم کے تناظر میں ہی خود کو ایٹمی طاقت بنایا اور جدید جنگی حربی ٹیکنالوجی حاصل کی جس کے بل بوتے پر ہماری جری و بہادر افواج نے پاکستان کو ایک ناقابلِ تسخیر قوت بنا دیا ہے جس کا عملی مظاہرہ پوری دنیا نے گذشتہ مئی میں افواج پاکستان کے ہاتھوں بھارت کی مودی سرکار کو اس کی جارحیت کے جواب میں گْھٹنوں کے بل گرنے کی صورت میں دیکھا۔ آج پوری اقوامِ عالم اور ٹرمپ سمیت ساری عالمی قیادتیں پاکستان کے مضبوط دفاعی حصار کی معترف ہیں اور پاکستان کے گن گا رہی ہیں۔ اسی تناظر میں رواں ماہ کے آغاز میں چین میں منعقدہ شنگھائی سربراہی کانفرنس اور پھر چین کی قومی پریڈ میں پاکستان کے مضبوط دفاع کا اعتراف کیا گیا اور وزیراعظم شہباز شریف کی پذیرائی کی گئی۔ اسی طرح قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد منعقدہ عرب سربراہ کانفرنس کے موقع پر بھی اور پھر وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کے دورہ سعودی عرب کے دوران بھی پاکستانی قیادتوں کی خوب پذیرائی ہوئی۔ پاک سعودی دفاعی معاہدہ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ اس کے فوراً بعد وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کے دورہ برطانیہ و امریکہ کا آغاز ہوا تو پاکستانی قیادتوں کو ملنے والا شاندار پروٹوکول پاکستان کی دنیا پر دھاک بٹھانے والی جنگی دفاعی صلاحیتوں کا ہی اعتراف تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں بھی خصوصی پروٹوکول ملا اور اب وائیٹ ہاؤس میں وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کی امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے پذیرائی بھی درحقیقت علاقائی اور عالمی امن کے لئے پاکستان اور افواج پاکستان کے بے مثال کردار کا اعتراف ہے۔
اسرائیل چونکہ مسلم امہ پر غلبہ پانے کے امریکی اور دوسری باطل قوتوں کے ایجنڈہ پر انہی کی سرپرستی میں کام کر رہا ہے جو غزہ کے علاوہ شام، لبنان، ایران اور قطر پر بھی حملہ آور ہو چکا ہے اور پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی کے بھی درپے ہے اس لئے اسے لگام ڈالے بغیر عالمی اور علاقائی امن کا ٹرمپ کا ایجنڈہ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ مسلم دنیا تو آج پاکستان اور سعودی عرب کی قیادت میں مکمل متحد ہو چکی ہے جو دنیا پر غلبہ پانے کی خواہش رکھنے والی قوتوں کے لئے دوٹوک پیغام ہے۔ اقوام متحدہ اگر اسی طرح چند بڑے ممالک کی باندی بن کر ان کے ہاتھوں میں کھیلتی رہی تو وہ بالاخر لیگ آف دی نیشنز والے انجام سے دوچار ہوگی اور ہر خود مختار ملک کو اپنے تحفظ و دفاع کے لیئے کوئی بھی قدم اٹھانے کا حق حاصل ہوگا جس کا مسلم دنیا کے اتحاد کی صورت میں آغاز ہو بھی چکا ہے۔ اس حوالے سے صدر ٹرمپ کی پاکستان کی اعلیٰ سول اور عسکری قیادتوں سے خصوصی ملاقات دور رس نتائج کی حامل ہوسکتی ہے اور یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ اسرائیل اور بھارت کے جارحانہ، توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند باندھ کر ہی علاقائی اور عالمی امن یقینی بنایا جا سکتا ہے اور دنیا کی تباہی روکی جا سکتی ہے۔بشکریہ نوائے وقت
واپس کریں