
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس واقعے کے بعد سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار کونسل احتجاج کرتی، انسانی حقوق کی تنظیمیں سراپا احتجاج ہوتیں، اگلے روز موقر اخبارات میں اداریے اور کالم لکھے جاتے۔ مگر سوشل میڈیا پر چند آوازوں کے سوا کچھ بھی نہیں گونجا۔
وطنِ عزیز بھی ناممکنات کا گواہ ہے۔ یہاں کچھ بھی ناممکن نہیں، کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کل جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ معزز جج صاحبان سپریم کورٹ آف پاکستان میں انصاف کے حصول یا یوں کہہ لیں دادرسی کے لیے ایک پٹیشن لے کر پہنچے تو رجسٹرار سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان کی پٹیشن پر اعتراضات لگا کر مسترد کر دیا۔ آپ اندازہ کریں کہ ملک کی ایک اعلیٰ عدالت کے پانچ معزز جج صاحبان کی تیار کردہ پٹیشن پر اعتراض لگا کر رد کر دیا گیا۔
یہ جج صاحبان عرصہ دراز سے قانونی اور آئینی معاملات کے مقدمات کے فیصلے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ہزاروں مقدمات کے فیصلے ان پانچ جج صاحبان نے کیے ہوں گے اور خود جب وہ دادرسی کے لیے اپنے سے اوپر سپریم کورٹ میں درخواست لے کر جائیں تو آگے سے ان کو یہ کہہ کر نامراد لوٹا دیا جائے کہ آپ کو تو درخواست لکھنی ہی نہیں آتی، آپ نے یہ یہ غلطیاں کی ہیں۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے! کیا کسی مہذب جمہوری ریاست میں یہ بات ممکن ہے؟ ایسا صرف وطنِ عزیز میں ہوتا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس واقعے کے بعد سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار کونسل احتجاج کرتی، انسانی حقوق کی تنظیمیں سراپا احتجاج ہوتیں، اگلے روز موقر اخبارات میں اداریے اور کالم لکھے جاتے۔ مگر سوشل میڈیا پر چند آوازوں کے سوا کچھ بھی نہیں گونجا۔ حرفِ انکار ہمارے خمیر میں ہی نہیں ہے۔ 25 کروڑ کے اس ملک میں شاید کوئی ایک دو ہی ہوں جو صدائے احتجاج بلند کرنے کا سلیقہ رکھتے ہوں، ورنہ اکثریت صرف "ہیئتِ مقتدرہ" کے اشاروں پر ناچتے بندر ہی ہیں۔
جس قوم کا مینڈیٹ ایک سال قبل چرا لیا جائے، فارم 47 کے حکمران مسلط کر دیے جائیں اور وہاں خاموشی ہو، وہاں کیا ہو سکتا ہے؟ 8 فروری 2024 کو جو کچھ ہوا، پہلے ملک کے اندر سے چند آوازیں بلند ہوئیں، جس پر پتن کے سربراہ نے ایک رپورٹ شائع کی۔ اس پر ان کو ملک چھوڑ کر جانا پڑ گیا کیونکہ طاقت وروں نے وطنِ عزیز کی زمین تنگ کر دی تھی۔ اسی رپورٹ پر جب معروف ٹی وی اینکر کاشف عباسی نے پروگرام کیا تو ان کو آف ایئر کر دیا گیا۔ وہ آج تک آف ایئر ہیں۔
راولپنڈی کے کمشنر نے کھلے عام دھاندلی کا اعتراف کیا، وہ بھی تب سے اب تک لاپتہ ہیں۔ اور اب بین الاقوامی سطح پر دولتِ مشترکہ کی رپورٹ کو ایک خبر رساں ایجنسی "ڈراپ سائٹ" نے اپنی ویب سائٹ پر لگا دیا ہے، جس نے 8 فروری 2024 کے انتخابات کا کچا چٹھا کھول دیا ہے۔ دولتِ مشترکہ نے یہ رپورٹ پاکستان کی ہیئتِ مقتدرہ کی درخواست پر پبلک نہیں کی تھی، مگر اس پر بھی اب تک خاموشی ہے۔ صرف تحریکِ انصاف کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجہ نے دولتِ مشترکہ کی رپورٹ پر بات کرنے کی جرات کی ہے۔
احباب کہتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں انقلاب برپا ہو چکا ہے۔ ایسے ہی حالات والے ممالک سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال میں عوامی لاوا پھٹ پڑا ہے۔ پاکستان میں بھی ایسے ہی حالات ہیں مگر ادھر انقلاب کیوں نہیں آتا؟ اس سوال کا جواب شاعرِ مشرق برسوں پہلے دے گئے ہیں:
"جس سے تعمیر ہو آدم کی، یہ وہ گل ہی نہیں"۔
وادیٔ تیرہ میں اپنوں کو خون میں نہلانے کے باوجود خاموشی اقبال کے فقرے کی تائید کرتی ہے۔
واپس کریں