
ہماری سوچی سمجھی رائے ہے گزشتہ دو سال کے دوران ڈاکٹر ماہرنگ کی وجہ سے سب سے زیادہ بلوچ نوجوان عسکریت پسند بنے۔ان میں کالجوں اور جامعات کے طالبعلم بھی تھے اور مختلف جگہوں پر موجود سرکاری اور نجی ملازمین بھی ریاست مخالف سرگرمیوں میں سہولت کار بنے ۔
سوشل میڈیا کا جو ہتھیار ففتھ جنریشن وار کے نام پر نوسر باز کو مسیحا بنانے اور قومی سیاستدانوں کو چور ڈاکو مشہور کرنے کیلئے استمال کیا گیا وہی ہتھیار ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے بیانیہ کو تقویت پہنچانے کیلئے پاکستان مخالف قوتوں نے استمال کیا ۔
جواز اکبر بگٹی کی شہادت اور لاپتہ بلوچوں کے معاملے کی وجہ سے موجود تھا ۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ پنے والد کی وجہ سے خود بھی متاثرہ فریق تھی ۔اس نے انتہائی اخلاص اور جرات کے ساتھ لاپتہ بلوچ نوجوانوں کے نام پر تحریک شروع کر دی ۔
حکومت کو اس تحریک سے ہونے والے نقصانات اور اثرات کا اندازہ لگاتے لگاتے دو ڈھائی سال گزر گئے ۔
بیانیہ جھوٹ کے ساتھ ساتھ چند فیصد سچا بھی تھا ۔
ریاستی ادارے لانگ مارچ،ریلوں اور دھرنوں کو جس طرح روکتے سوشل میڈیا کے زریعہ بلوچ نوجوانوں میں اس کے اثرات بڑھتے ہی جاتے ۔
یہی معاملات پنجاب میں ہوں ۔سوشل میڈیا کے زریعہ مقبول بیانیہ بنایا جائے پنجاب کے نوجوان بھی عسکریت پسند بننا شروع ہو جائیں گے ۔
ریاستی اداروں میں سوشل سائنس کے ماہرین نہیں ہوتے ۔اسٹیبلشمنٹ نوجوانوں کو منانے کیلئے فیصلہ کرتی ہے بلوچ نوجوانوں کو پنجاب کے تعلیمی اداروں میں سکالرشپ دی جائے لیکن جو معاملات بلوچ نوجوانوں کو عسکریت پسندی کی طرف لے جاتے ہیں ان پر توجہ نہیں ہوتی۔
ایک طرف بلوچ نوجوانوں کو پنجاب کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے مواقع دئے جاتے ہیں دوسری طرف ڈاکٹر ماہ رنگ لاپتہ بلوچوں کا دھرنوں،جلوسوں اور ریلیوں میں نوحہ پڑھتی تھی ۔ظاہر ہے بلوچ نوجوانوں نے سکالرشپ کو بھول کر ریاست اور فوج کو ولن ہی سمجھنا تھا۔
ہم سمجھتے ہیں دو سال پہلے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ پر ہاتھ ڈال دیا جاتا بی ایل اے کے غیر ملکی ہنڈلرز کو چین امریکہ سی پیک کشمکش میں جلانے کیلئے بلوچ نوجوانوں کا ایندھن وافر مقدار میں نہ ملتا۔
ڈاکٹر ماہ رنگ کو جو قبولیت ملی اس نے بلوچستان کی دیگر خاص طور پر خواتین ڈاکٹروں کو احتجاجی تحریکوں میں شامل ہونے پر اکسایا ۔
اب ریاست نے نمایاں چہروں کو دھرنے،ریلیاں اور لانگ مارچ کرنے سے روک دیا ہے ۔اب سوشل میڈیا پر ڈاکٹر ماہ رنگ نہیں رہی صرف دہشت گرد بی ایل اے رہ گئی ہے ۔
عسکریت پسندی کی تحریکیں کبھی ریاست کا مقابلہ نہیں کر سکتیں ۔پہلے بھی ختم ہوئیں موجودہ تحریک بھی ختم ہو جائے گی ۔
ریاست بلوچ عسکریت پسندی کی موجودہ تحریک کو بے رحمانہ طریقے سے کچل دے۔ اس کے بعد بلوچ نوجوانوں کیلئے عام معافی کا اعلان کر کے انہیں قومی دھارے میں واپسی کا موقع فراہم کرے ۔
واپس کریں