عالمی یومِ امن اور مستقل حل کے منتظر فلسطین و کشمیر کے تنازعات

عالمی سطح پر گزشتہ روز یومِ امن ایک ایسے موقع پر منایا گیا جب صہیونی دہشت گردوں کے ہاتھوں غزہ میں انسانی حقوق کی سنگین ترین خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری ہے اور ناجائز صہیونی ریاست مشرقِ وسطیٰ میں موجود اپنے تمام ہمسایوں کے لیے ایک مستقل خطرہ بنی ہوئی ہے۔ اسی طرح، پون صدی سے زائد عرصے سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی غاصب افواج کے مظالم بھی کشمیری عوام کے لیے سانس لینا بھی جرم بنا رہے ہیں۔ کئی دہائیوں سے اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر موجود یہ دونوں تنازعات ایسے مسائل ہیں جو اس ادارے کے وجود پر سوالیہ نشان ہیں۔ اس صورتحال میں عالمی یومِ امن کا منایا جانا پوری بین الاقوامی برادری کے لیے شرمندگی کا باعث ہونا چاہیے کیونکہ تمام تر طاقت اور اختیارات کے باوجود بین الاقوامی اتحاد اور عالمی ادارے اس قابل نہیں ہوسکے کہ ان مسائل کا مستقل حل فراہم کر سکیں۔
مسلم ممالک کے حکمران فلسطین اور کشمیر کے تنازعات کی اہمیت سے پوری طرح واقف اور ان کے حل کے لیے ضروری اقدامات سے آگاہ ہونے کے باوجود محض مذمتی بیانات ہی جاری کر رہے ہیں۔ اگر یہ تنازعات صرف بیانات ہی سے حل ہونے ہوتے تو اس کام کے لیے پون صدی سے زائد عرصہ نہ لگتا۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ جب تک مسلم ممالک مل کر ان تنازعات کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کریں گے اس وقت یہ مسائل حل نہیں ہوں گے۔ غاصب صہیونیوں اور شدت پسند بھارتیوں کی سوچ اور طریقہ ہائے کار میں مماثلت یہ واضح کرتی ہے کہ یہ دونوں ہی لاتوں کے بھوت ہیں، لہٰذا ان پر باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ اگر مسلم ممالک کے حکمرانوں نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لیے تو عالمی سطح پر عوام میں جو بیداری کی لہر پیدا ہو رہی ہے وہ بہت جلد مسلم ممالک میں ایک ایسے انقلاب آفرین سلسلے کی بنیاد رکھے گی جو ان حکمرانوں اور ان کی طاقت و سطوت کو سوکھے تنکوں کی طرح بہا کر لے جائے گا۔
واپس کریں