دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ترقی کا مقصد انسانوں کو سہارا دینا ہونا چاہیے۔پروفیسر ڈاکٹر شگفتہ اشرف
No image (جنیوا۔پریس ریلیز)پروفیسر ڈاکٹر شگفتہ اشرف اسسٹنٹ پروفیسر یونیورسٹی آف کوٹلی آزاد جموں و کشمیر نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے نام نہاد ترقیاتی منصوبوں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں ماحولیاتی تباہی، معاشی استحصال اور ثقافتی مٹاؤ قرار دیا۔
وہ جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 60ویں اجلاس کے ساتویں سیشن سے خطاب کر رہی تھیں جہاں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ترقی کو انسانی حق کے طور پر انصاف، مساوات اور رضامندی کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ ڈاکٹر شگفتہ نے مشاہدہ کیا کہ آرٹیکل 370 کی غیر قانونی منسوخی کے بعد اس خطے کو استحصالی کارپوریٹ زمینوں کے قبضوں، لیتیھیم اور کوئلے کے بے دریغ دوہن اور ایسے بڑے انفراسٹرکچر منصوبوں کے لیے کھول دیا گیا ہے جو کشمیری عوام کی آزادانہ اور باخبر رضامندی کے بغیر مسلط کیے گئے ہیں۔ ان اقدامات کے نتیجے میں، انہوں نے خبردار کیا، بڑے پیمانے پر جنگلات کی کٹائی، برفانی تودوں کی تیزی سے کمی اور زہریلے فضلے کے اخراج نے پورے دریائے سندھ کے طاس کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
بھارت کے ترقی کے بیانیے کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ درحقیقت یہ سول سوسائٹی کو خاموش کرانے اور پالیسی کو کارپوریٹ مفادات کے حوالے کرنے کا عمل ہے جس کی قیمت انسانی وقار اور اجتماعی حقوق سے وصول کی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر شگفتہ نے اقوام متحدہ کے ماہرین کے میکانزم پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر کشمیر کا دورہ کریں، حق برائے ترقی کے اصولوں کی پاسداری کا جائزہ لیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ عالمی سرمایہ کاری ایسے منصوبوں کی پشت پناہی نہ کرے جو مقبوضہ عوام پر زبردستی مسلط کیے جائیں۔ انہوں نے اس بات کا بھی مطالبہ کیا کہ حق برائے ترقی پر ایک پابند معاہدہ تشکیل دیا جائے جو نہ صرف ریاستوں بلکہ ان کارپوریشنز پر بھی ذمہ داریاں عائد کرے جو کشمیر کی بے دخلی سے منافع کما رہی ہیں۔انہوں نے اپنے خطاب کا اختتام ان الفاظ پر کیا:“ترقی کا مقصد انسانوں کو سہارا دینا ہونا چاہیے — نہ کہ ان کی قبروں کو روند ڈالنا۔”
واپس کریں