جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے خلاف رٹ پٹیشن کرنے والے کون ہیں؟حارث قدیر

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی عدالت العالیہ میں ایک رٹ پٹیشن سماعت کے لیے منظور کر کے فریقین کو نوٹس جاری کیے ہیں۔
یہ رٹ پٹیشن سردار عمران حسین ولد سردار جنت حسین خان سکنہ متیالمیرہ راولاکوٹ، سردار احسن خان، ولد نذیر خان، سکنہ چھوٹا گلہ، اور منیر ریاض ولد ریاض سکنہ بوسہ گلہ تھوراڑ کی جانب سے ان کے وکیل بلال شکیل ایڈووکیٹ نے دائر کی ہے۔
پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ گزشتہ دو سال سے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی مختلف ریلیاں اور احتجاج منعقد کر رہی ہے۔ ان سرگرمیوں کے نتیجے مٰں ریاست مفلوج ہوجاتی ہے، کاروبار بند ہوتے ہیں، نقل و حمل میں رکاوٹ آتی ہے اور آئینی ڈھانچے پر سوالیہ نشان کھڑا ہوتا ہے۔
پٹیشنرز کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ عوام اور پٹیشنرز کو آزادانہ نقل و حرکت کا حق ہے، لیکن کمیٹی کی طرف سے سڑکیں بلاک کرنے اور ٹرانسپورٹ پر پابندی لگانے سے یہ حق متاثر ہوا۔اس قسم کے اقدامات غیرقانونی اور غیر آئینی ہیں کیونکہ یہ عوامی آزادیوں پر قدغن لگاتے ہیں۔
پٹیشنرز کے مطابق جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نہ تو رجسٹرڈ ہے، نہ منتخب کی گئی ہے۔ یوں ایک غیر رجسٹرڈ اور غیر قانونی کمیٹی کو احتجاج اور ریاست کو بند کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔
پٹیشنرز کے مطابق حکومتی ادارے تماشائی بنے ہوئے ہیں اور غیر قانونی اقدامات کو روکنے میں ناکام ہیں۔ حکومت کی خاموشی سے عوام کے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔
پٹیشنرز نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ حکومت اور اداروں کو ہدایت دے کہ آئین یعنی ایکٹ1974کے آرٹیکل 4 کے تحت پٹیشنرز کے بنیادی حقوق کا تحفظ کریں۔ غیر رجسٹرڈ یا غیر قانونی گروہوں، یونینز یا اجتماعات کو روکا جائے اور ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے تاکہ آئندہ امن و امان برقرار رہے۔حکومت کو پابند کیا جائے کہ وہ عوام الناس کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرے۔ مقدمے کے اخراجات پٹیشنرز کے حق میں اور ریسپانڈنٹس کے خلاف دیے جائیں۔
عمران جنت کا تعلق کیپٹن حسین فریڈم موومنٹ نامی تنظیم کے ساتھ ہے۔ وہ ریاستی اداروں کی حمایت میں مہم چلانے کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ ان کا تعلق سابق انٹیلیجنس چیف جنرل (ر) حمید گل کے بیٹے و بیٹی عبداللہ گل اور عظمیٰ حمید گل سے تعلق رکھنے والے قبضہ گروپوں سے بھی ظاہرکرتے ہیں۔ تاہم وہ اپنا تعلق حمید گل اور ان کی اولاد سے برملا ظاہر کرتے رہتے ہیں۔ریاست کے حق میں پروپیگنڈہ کرنے اور آزادی اور انقلاب کی آوازوں کے خلاف مہم چلانے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔ عمران جنت اور ان کے ساتھ عوامی حقوق تحریک کے احتجاجی مظاہروں میں بھی شریک ہوتے رہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ 29 ستمبر کی لاک ڈاؤن کی کال کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان کے اعلیٰ حکام نے کمر کس لی ہے۔ اس کے لیے کثیر الجہتی اقدامات کیے جانے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اعلیٰ حکام نے ایکشن کمیٹیوں کو کریش کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ اس مقصد کے لیے عدالت کے ذریعے احتجاج کو غیر قانونی قرار دینے کے بعد آپریشن کی قانونی راہ بھی اپنائی جا سکتی ہے۔
اس خطے پر نافذ ایکٹ 1974 کو عبوری آئین قرار دیا جاتا ہے۔ اس ایکٹ کے مطابق جموں کشمیر کے پاکستان سے الحاق پر یقین نہ رکھنے والی کوئی جماعت، تنظیم، یونین رجسٹر نہیں ہوسکتی، نہ ہی الحاق سے اختلاف رکھنے والا کوئی پروگرام منعقد کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح غیر رجسٹر تنظیموں کو احتجاج کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔
تاہم دوسری طرف اسی ایکٹ میں ایک تضاد یہ بھی ہے کہ ہر شہری کو تحریر و تقریر اور اجتماع کی آزادی حاصل ہے۔ یوں اس آئین کے تحت شہری اجتماع، یا احتجاج کر بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی کر سکتے۔ آزادی اظہار سے اجتماع اور احتجاج تک کے حقوق کو ملکی سالمیت، الحاق پاکستان، سمیت دیگر پابندیوں سے بھی مشروط کیا گیا ہے۔ اس طرح اگر عدالت چاہے تو ایکشن کمیٹی اور احتجاجی کال پر پابندی بھی عائد کر سکتی ہے اور رٹ پٹیشن مسترد بھی کر سکتی ہے۔ یہ فیصلہ البتہ انہی کی مرضی سے ہوگا، جنہوں نے یہ رٹ پٹیشن دائر کروائی ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ یہی حکومت ماضی میں متعدد بار اس تحریک کی موجودہ قیادت کے ساتھ مذاکرات اور معاہدے بھی کر چکی ہے اور ان معاہدوں پر عملدرآمد بھی نہیں کیا گیا ہے۔ یوں حکومت اس احتجاج کو پہلے ہی قانونی حیثیت دے چکی ہے۔ کچھ مطالبات مان کر عملدرآمد بھی کر چکی ہے، جبکہ دیگر مطالبات کو تسلیم کر کے معاہدے بھی کیے گئے ہیں۔ اب ان معاہدوں پر عملدرآمد کی بجائے معاہدوں کی یاددہانی کروانے والے احتجاج کو روکنے کا انتظام کیا جا رہا ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ تحریک کی قیادت نے ایس او پیز بھی جاری کر رکھی ہیں، جن کے مطابق حکومت پاکستان، ریاست پاکستان اور پاکستان کے اداروں کے خلاف بات کرنے اور نعرے لگانے پر پابندی عائد ہے۔ جموں کشمیر کی آزادی کی بات کرنے پر بھی پابندی عائد ہے اور مسائل کا ذمہ دار ریاست پاکستان کو قرار دینے پر بھی پابندی عائد ہے۔ اس نوعیت کی دیگر پابندیاں بھی ایس او پیز کے تحت عائد کی گئ ہیں۔ تاہم اس سب کے باوجود ریاست اس احتجاج کے سلسلے کو کچلنے کے لیے کمر بستہ ہے۔
دوسری جانب انتظامی اور حکومتی نمائندگان نجی محافل میں یہ دعوے بھی کرتے ہیں کہ تحریک کی قیادت کو مقتدرہ کی حمایت حاصل ہے، جبکہ عوامی مقامات پر تحریک کی قیادت کو بھارتی سازش کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔
واپس کریں