دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عوام کے ٹیکس، وفاق کی اربوں کی گرانٹس، اشرافیہ کے عیش۔آزادکشمیر کا المیہ
No image اسلام آباد (رپورٹ: خواجہ کاشف میر) انسٹیٹیوٹ آف فیکٹس اینڈ ریسرچ کی آزادکشمیر سے متعلق تازہ رپورٹ کے مطابق آزادکشمیر میں عوامی مزاحمت اور بڑھتی ہوئی بے چینی کسی وقتی اشتعال کا نتیجہ نہیں بلکہ دہائیوں پر محیط ایسے مراعاتی نظام کا ثمر ہے جس نے محدود وسائل والی ریاست میں عوام کو بنیادی سہولتوں سے محروم اور سیاسی و عدالتی اشرافیہ کو شاہانہ مراعات سے نواز دیا۔ ریاست کی مجموعی آبادی تقریباً 46 لاکھ ہے جن میں سے 30 لاکھ آزادکشمیر کے اندر رہتے ہیں۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ اس چھوٹی سی آبادی کے لیے تشکیل دیا گیا سیاسی و عدالتی ڈھانچہ ایسا بوجھ بن چکا ہے جو بعض پہلوؤں میں پاکستان جیسے 25 کروڑ آبادی والے ملک کے برابر یا اس سے بھی بڑھ کر ہے۔
رپورٹ کے مطابق اعداد و شمار کے مطابق آزادکشمیر کی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز اسلام آباد کے ہم منصب ججز کے مساوی تنخواہیں اور مراعات وصول کرتے ہیں، اور ’’خودکار نظام‘‘ کے تحت جب پاکستان میں اضافہ ہوتا ہے تو مظفرآباد میں بھی وہی اضافہ ازخود لاگو ہو جاتا ہے۔ ریٹائرڈ ججز کی پنشن ایک ملین روپے ماہانہ سے تجاوز کر چکی ہے۔ دوسری جانب سابق صدور و وزرائے اعظم نہ صرف اقتدار کے دوران شاہانہ مراعات لیتے ہیں بلکہ تاحیات مراعات کے مزے بھی لوٹ رہے ہیں۔ ان میں تنخواہوں اور پنشن کے ساتھ سرکاری گاڑیاں، سرکاری عملہ، 400 لیٹر فیول اور سکیورٹی شامل ہیں، یوں ایک شخص بیک وقت دو یا تین سطحوں پر عوامی خزانے سے فائدہ اٹھاتا ہے۔
جون 2021 میں آزادکشمیر اسمبلی نے ایک متنازع بل منظور کیا جس کے تحت سابق وزرائے اعظم کو 50 ہزار روپے ماہانہ کرایہ، سرکاری گاڑی، 400 لیٹر فیول، ڈرائیور، گن مین اور گریڈ 16 کا کلرک فراہم کرنے کا قانون بنایا گیا۔ مئی 2022 میں ایک اور بل کے ذریعے اراکین اسمبلی کی تنخواہیں اور مراعات بڑھا دی گئیں، ہر ایم ایل اے کو دفتر، عملہ اور سفری الاؤنس دیا گیا جبکہ وزراء کو باضابطہ دو گاڑیاں الاٹ کی گئیں لیکن بیشتر تین سے چار گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں۔
موجودہ دور حکومت یعنی وزیراعظم چوہدری انوار الحق کے دور میں وزراء کی ماہانہ تنخواہیں 9 لاکھ روپے تک پہنچا دی گئی ہیں، مشیروں کو ساڑھے 6 لاکھ روپے اور عام اراکین اسمبلی کو تنخواہوں و مراعات کی مد میں 4 لاکھ روپے سے زائد ماہانہ دیے جا رہے ہیں۔ یوں محدود وسائل والی ریاست میں اشرافیہ کی تنخواہیں خطے کے کئی ترقی یافتہ ممالک کے معیار کو بھی پیچھے چھوڑ چکی ہیں۔
وزیراعظم چوہدری انوار الحق کے دور میں مراعات خوروں کی فوج جیسی کابینہ تشکیل دی گئی، جس کی تعداد 16 سے بڑھا کر 36 کر دی گئی۔ اس کابینہ میں اظہر صادق (مواصلات)، چوہدری قاسم مجید (امورِ منگلا)، یاسر سلطان (فزیکل پلاننگ و ہاؤسنگ)، چوہدری ارشد حسین (بجلی)، وقار احمد نور (سروسز و داخلہ)، ظفر اقبال ملک (اعلیٰ تعلیم)، چوہدری جاوید اقبال بڈھانوی (بحالیات)، چوہدری محمد اخلاق (ریونیو)، عامر یاسین (ایس ڈی ایم اے و سول ڈیفنس)، نثار انصر ابدالی (صحت)، سردار میر اکبر (زراعت)، راجہ فیصل ممتاز راٹھور (لوکل گورنمنٹ)، سردار عامر الطاف (ٹیویٹا)، سردار محمد حسین (بہبود و آبپاشی)، فہیم اختر (سیاحت و آثار قدیمہ)، میاں عبدالوحید (قانون)، سردار محمد جاوید (زکوٰۃ و عشر و وائلڈ لائف)، سید بازل علی نقوی (سماجی بہبود)، چوہدری محمد رشید (پی ڈی او)، دیوان علی خان (پرائمری و سیکنڈری تعلیم)، محمد اکمل سرگالا (جنگلات)، محمد اکبر چوہدری (خوراک)، راجہ محمد صدیق (صنعت و تجارت)، عامر عبدالغفار لون (ماحولیات)، عاصم شریف بٹ (کھیل و ثقافت)، جاوید بٹ (ٹرانسپورٹ)، محمد احمد رضا قادری (مذہبی امور و اوقاف)، عبدالمجید خان (خزانہ)، سردار ضیاالقمر (آئی ٹی)، محمد مظہر سعید شاہ (اطلاعات)، کوثر تقدیس گیلانی (سمال انڈسٹریز) اور بیگم امتیاز نسیم (لبریشن سیل) شامل ہیں۔
ان کے ساتھ مشیران اور معاونین خصوصی صبیحہ صدیق، نثاراں عباسی، نبیلہ ایوب اور احمد صغیر بھی سرکاری خزانے سے حصہ وصول کر رہے ہیں۔ یوں کابینہ، مشیروں اور معاونین کی مجموعی تعداد 36 تک جا پہنچی ہے جبکہ اسپیکر چوہدری لطیف اکبر، ڈپٹی اسپیکر ریاض گجر اور اپوزیشن لیڈر خواجہ فاروق احمد سمیت کل مراعات یافتہ افراد کی تعداد 40 سے تجاوز کر گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق آزادکشمیر میں اشرافیہ مراعات کی یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ سابق صدر و وزیراعظم سردار یعقوب خان، سابق وزرائے اعظم سردار عتیق احمد خان، راجہ فاروق حیدر اور سردار عبدالقیوم نیازی بھی تاحیات مراعات کے مزے لوٹ رہے ہیں اور بیک وقت مختلف مدوں میں عوامی خزانے پر بوجھ بنے بیٹھے ہیں۔ موجودہ اسمبلی ممبران میں چوہدری یاسین، شاہ غلام قادر، حافظ حامد رضا، دیوان محی الدین، اقبال ماؤ، رفیق نیئر، حسن ابراہیم اور علی خان سونی بطور رکن اسمبلی مراعات حاصل کر رہے ہیں، آزادکشمیر واحد ایسا خطہ ہے جہاں سابق ممبران اسمبلی کو سرکاری ملازمین کی طرز پر پینشن دینے کا قانون بھی ہے، اس وقت ڈیڑھ سو کے قریب ایسے افراد موجود ہیں جو ممبر اسمبلی رہے اور انکو آزادکشمیر کے خزانے سے 70 ہزار روپے سے ڈیڑھ لاکھ روپے کے درمیان ماہانہ پینشن کی ادائیگی سرکاری خزانے سے کی جاتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق آزادکشمیر کی 30 لاکھ کی محدود آبادی کو دنیا کی مہنگی ترین سیاسی و عدالتی اشرافیہ کا بوجھ اٹھانا پڑ رہا ہے۔ عوام مہنگائی، بیروزگاری اور علاج معالجے کی کمی میں پس رہے ہیں جبکہ حکمران طبقہ مراعات، گاڑیوں اور محلات میں عیش کر رہا ہے۔ آزادکشمیر کے موجودہ و سابق ممبران اسمبلی کا علاج پاکستان سمیت بیرون ممالک بھی سرکاری خزانے سے کرایے جانے کا قانون موجود ہے۔ عالمی قوانین جیسے اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا اعلامیہ 1948 اور معاشی و سماجی حقوق کا معاہدہ 1966 ریاست پر عوامی حقوق کی ذمہ داری ڈالتے ہیں لیکن آزادکشمیر میں ان اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ پاکستان کا آئین (آرٹیکل 25) مساوات کی ضمانت دیتا ہے جبکہ آزادکشمیر کا عبوری ایکٹ 1974 ریاستی وسائل کو عوامی فلاح کے لیے مخصوص کرتا ہے لیکن عملی صورتحال اس کے برعکس ہے۔ جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف سے اشرافیہ کی انہی مراعات کے خاتمے کا مطالبہ زور پکڑ چکا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اشرافیہ کی مراعات کا یہ نظام برقرار رہا تو عوامی مزاحمت مزید شدت اختیار کرے گی اور حکمران طبقے کو بالآخر عوامی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا۔ غیر آئینی اور غیر ضروری مراعات کو فوری ختم کیا جانا چاہیے، عوامی بجٹ کا کم از کم 60 فیصد حصہ صحت، تعلیم اور روزگار پر خرچ کیا جانا چاہیے اور اسمبلی کو آئینی اصلاحات کے ذریعے عوامی مفاد کے تابع بنایا جانا چاہیے تاکہ آزادکشمیر کے عوام بھی عالمی قوانین اور ملکی آئین کے تحت مساوات اور بنیادی سہولتوں سے مستفید ہو سکیں۔
واپس کریں