
دنیا بھر میں اربوں لوگ آلودہ فضا میں سانس لیتے ہیں جس سے سالانہ 45 لاکھ اموات ہوتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے واضح کیا ہے کہ زمین، لوگوں اور معیشتوں کو آلودگی کے سنگین اثرات سے تحفظ دینے کے لیے موسمیاتی تبدیلی پر قابو پانا ہو گا۔
عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) کے سائنسی افسر لورنزو لیبراڈور نے بتایا ہے کہ فضائی آلودگی سرحدوں سے ماورا ہوتی ہے۔ جنگلات میں لگنے والی آگ سے پیدا ہونے والے دھوئیں کے ذرات آلودگی کا ایک بڑا سبب ہیں جو مختصر وقت میں آدھی دنیا کا سفر طے کر کے دوسرے علاقوں تک پہنچ جاتے ہیں۔
جزیرہ نما آئیبیریا کے جنگلوں میں بڑے پیمانے پر لگنے والی حالیہ آگ سے اٹھنے والا دھواں اور آلودگی مغربی یورپ تک پہنچ چکے ہیں جو پورے براعظم کو متاثر کر سکتے ہیں۔
لیبراڈور نے فضائی معیار اور موسمیاتی صورتحال پر ‘ڈبلیو ایم او’ کی تازہ ترین اطلاعات کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ دنیا بھر میں فضائی آلودگی شدت اختیار کر رہی ہے۔
گزشتہ سال جنگلاتی آگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والے باریک ذرات ‘پی ایم 2.5’ ذرات چلی، برازیل، ایکواڈور، کینیڈا، وسطی افریقہ اور سائبیریا کے موسمیاتی نقشوں میں واضح دکھائی دیتے ہیں۔ یہ صورتحال فضائی معیار میں کمی کے تشویشناک رجحان کی تصدیق کرتی ہے جس کا گزشتہ برسوں میں بھی مشاہدہ کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ ہر سال دنیا کے مختلف حصوں میں لگنے والی جنگلوں کی آگ زیادہ شدید اور طویل ہوتی جا رہی ہے اور اس کا سبب موسمیاتی تبدیلی ہے۔
چین اور یورپ میں امید کی کرن
‘ڈبلیو ایم او’ میں شعبہ عالمی ماحول کے سربراہ پاؤلو لاج نے بتایا ہے کہ دنیا کے کچھ حصوں میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں سال بہ سال کمی آئی ہے جن میں مشرقی چین اور یورپ نمایاں ہیں۔ جب کوئی خطہ، ملک یا شہر فضائی آلودگی کے خلاف اقدامات کرتا ہے تو اس کے مثبت نتائج سامنے آتے ہیں۔
مشرقی چین کا شہر شنگھائی اس کی نمایاں مثال ہے جہاں ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے مزید پارک بنائے گئے اور بڑی تعداد میں درخت لگائے گئے ہیں۔ ‘ڈبلیو ایم او’ کی ترجمان کلیئر نولیس کا کہنا ہے کہ اگرچہ شہر میں اب بھی بہت بڑی تعداد میں گاڑیاں ہیں لیکن ان میں بہت سی ایسی ہیں جو بجلی سے چلتی ہیں۔
صحت عامہ کا مسئلہ
پاؤلو لاج کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں بہت کم شہر ایسے ہیں جہاں ہوا کا معیار عالمی ادارہ صحت ‘ڈبلیو ایچ او’ کی تجویز کردہ سطح سے بہتر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حالیہ بہتری کے باوجود، فضائی معیار اب بھی عوامی صحت کا ایک اہم مسئلہ ہے۔
انہوں نے بتایا ہے کہ اگرچہ فضا میں سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن آکسائیڈ کی مقدار میں کمی آ رہی ہے جن سے بڑے پیمانے پر آلودگی پھیلتی ہے، لیکن زمین کی سطح کے قریب اوزون کی تہہ میں کمی نہیں آئی۔ یہ جزوی طور پر عالمی حدت میں اضافے کا نتیجہ ہے، کیونکہ اوزون ایک ثانوی آلودہ عنصر ہے جو فضا میں کیمیائی تعاملات کے ذریعے بنتا ہے اور اس کے لیے دھوپ ضروری ہوتی ہے۔
گھریلو فضائی آلودگی
‘ڈبلیو ایم او’ کی نائب سیکرٹری جنرل کو بیریٹ نے واضح کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی اور فضائی آلودگی کو الگ مسائل کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ہماری زمین، لوگوں اور معیشتوں کو تحفظ دینے کے لیے ان سے ایک ساتھ نمٹنا ہو گا۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یونیپ) کے زیراہتمام موسمیات و صاف فضا سے متعلق اتحاد کے سیکرٹریٹ کی سربراہ مارٹینا اوٹو نے کہا ہے کہ اقوامِ متحدہ گھریلو فضائی آلودگی سے نمٹنے کے اقدامات میں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ آلودگی صحت عامہ کو لاحق سب سے بڑے خطرات میں سے ایک اور بچوں کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اب ماحول دوست انداز میں کھانا بنانے کی ٹیکنالوجی عام اور سستی ہو چکی ہے جو کہ بہت اچھی خبر ہے اور اس سے لوگوں کی صحت و زندگی کو تحفظ مل رہا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی کو دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک کیسے پہنچایا جائے۔
رپورٹ ڈی ڈبلیو
واپس کریں