بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر رکوانے کے لیئے چھ ارب روپے کے فنڈز مختص کیئے

پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علماء اسلام(ف) اور پاکستان تحریک انصاف نے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کا بیانیہ اپنی سیاسی پوٹلی سے دوبارہ باہر نکال کر اس ڈیم کی تعمیر کی مخالفت شروع کر دی ہے۔ گذشتہ روز وزیراعلیٰ خیبر پی کے علی امین گنڈا پور نے صائب مشورہ دیا تھا کہ کالا باغ ڈیم سمیت تمام ڈیمز کی تعمیر ہونی چاہیے اور اگر یہ سیاسی مسئلہ ہے تو اس کا حل نکالا جانا چاہیے ۔ ان کے بقول اگر خیبر پی کے اسمبلی نے کالا باغ ڈیم کے خلاف پہلے قرار داد منظور کی ہوئی ہے تو اب اتفاق رائے پیدا کرکے اس کے حق میں قرار داد منظور کی جا سکتی ہے۔ یہ طرفہ تماشہ ہے کہ گنڈا پور کی اس تجویز کے ساتھ ہی ہماری قومی سیاسی جماعتوں میں موجود کالا باغ ڈیم مخالفین لنگوٹ کس کر دوبارہ میدان میں اتر آئے جن میں پی ٹی آئی کے اہم عہدے داران بھی شامل ہیں جس پر وزیراعلیٰ گنڈا پور بھی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لئے اپنے مؤقف پر ڈٹ گئے ہیں اور زور دے کر کہا کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر قومی مفاد میں ہے۔ ان کے بقول اس ڈیم کو نہ بنانے کی سیاست انتقامی سیاست ہے۔ انہوں نے نئے صوبے بنانے کی بھی حمایت کی۔ اس کے برعکس سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کالا باغ ڈیم پر وزیر اعلیٰ خیبر پی کے کے مؤقف کو ان کی ذاتی رائے قرار دیا اور کہا کہ ان کا بیان پارٹی پالیسی سے ہٹ کر ہے۔ ہماری پارٹی پالیسی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حق میں نہیں۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کے صدر بیرسٹر گوہر علی کا کہنا تھا کہ ڈیمز کی تعمیر ضروری ہے تاہم یہ اتفاقِ رائے سے ہی بننے چاہیئں۔ اسی طرح پیپلز پارٹی، اے این پی اور جے یو آئی ف نے بھی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لئے وزیرِ اعلیٰ کے پی کے کی تجویز سخت الفاظ کے ساتھ مسترد کر دی۔ اے این پی کے سربراہ ایمل ولی خاں نے گذشتہ روز اپنے بیان میں کہا کہ کالا باغ ڈیم سیلاب کے نقصانات روکنے کا کوئی حل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کٹھ پتلی علی امین گنڈا پور اپنے آقاؤں کی زبان بول رہے ہیں۔ ان کے بقول ہماری نسلیں بھی کالا باغ ڈیم تعمیر نہیں ہونے دیں گی۔ اس سلسلہ میں پیپلز پارٹی کے رہنما نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ علی امین گنڈا پور کالا باغ ڈیم کے حق میں بات کر کے ایوان کی توہین کر رہے ہیں اور مردہ گھوڑے کو زندہ کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح جمیعت علماء اسلام ف کے ترجمان عبدالجلیل جان نے بھی کالا باغ ڈیم کو مردہ گھوڑا قرار دیا اور کہا کہ وزیراعلیٰ کے پی کے پہلے یہ بتائیں کہ انہوں نیجن 350 ڈیمز کی تعمیر کا اعلان کیا تھا، وہ انہوں نے کہاں پر بنائے ہیں۔ اسی طرح جنرل سیکرٹری پیپلز پارٹی خیبر پی کے ہمایوں خاں نے بھی علی امین گنڈا پور کے بیان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ علی امین عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے قائدین کا کہنا ہے کہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پی کے اسمبلیاں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف پہلے ہی قراردادیں منظور کر چکی ہیں اس لئے وزیراعلیٰ کے پی کے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی بات کرکے اپنے ہی منتخب ایوان کی توہین کر رہے ہیں۔
یہ حقیقت تو کسی شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ بھارت نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر رکوانے کے لئے اپنی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کا باقاعدہ ایک سیل قائم کیا جسے پاکستان میں موجود اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کالا باغ ڈیم کی قومیت پرستی کی بنیاد پر مخافت کراکے اسے متنازعہ بنانے کا ٹاسک دیا گیا اور اس مقصد کے لئے اس وقت چھ ارب روپے کے فنڈز بھی مختص کئے گئے چنانچہ جب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا عندیہ دیا تو اس کی مخالفت میں سب سے پہلے اے این پی میدان میں اتری جس کی لیڈر شپ کے بھارت کے ساتھ پہلے ہی روابط موجود تھے۔ اس پارٹی نے پراپیگنڈہ کیا کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے نوشہرہ ڈوب جائے گا اس لئے اس کی تعمیر کسی صورت نہیں ہونے دی جائے گی۔ اس بنیاد پر بھٹو نے کالا باغ ڈیم کی فائل بند کرا دی۔ اے این پی نے ضیاء الحق کے دور میں بھی کالاباغ ڈیم مخالف سیاست جاری رکھی جبکہ پیپلز پارٹی نے بھی قوم پرستی کی بنیاد پر کالا باغ ڈیم کی مخالفت شروع کردی اور بالخصوص پیپلز پارٹی سندھ نے قرار داد منظور کرکے اعلان کیا کہ ہماری لاشوں سے گذر کر ہی کالا باغ ڈیم تعمیر کیا جاسکتا ہے۔ یہ طرفہ تماشہ ہے کہ اس وقت پیپلز پارٹی پنجاب نے بھی اس قرار داد کا ساتھ دیا۔ جب پرویز مشرف نے اپنے دور حکومت میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا عزم ظاہر کیا تو قوم پرستی کا لبادہ اوڑھے عناصر پھر اس کی مخالفت کے لئے میدان میں اتر آئے۔ اسی دور میں نوائے وقت نے قومی مفاد کے تحت کالا باغ ڈیم پر ریفرنڈم کا اہتمام کیا جس کے حق میں ملک بھر سے 99.95 فیصد ووٹ آئے۔ نوائے وقت نے قوم کے اس تقریباً متفقہ فیصلے سے حکومت کو آگاہ کر دیا مگر کالا باغ ڈیم کے مخالفین اس کی تعمیر رکوانے کے بھارتی ایجنڈے پر ہی گامزن رہے۔ جب 2011ء میں بھارت کی جانب سے چھوڑے گئے پانی کے باعث سیلاب صوبہ سرحد میں بھی داخل ہو گیا اور نوشہرہ تک ڈوب گیا تو پیپلز پارٹی کے مخدوم امین فہیم نے اپنے بیان کے ذریعے اس پچھتاوے کا اظہار کیا کہ اگر کالا باغ ڈیم بن گیا ہوتا تو آج ہمیں یہ نقصانات نہ اٹھانا پڑتے۔ اسی طرح واپڈا کے سابق چیئرمین انجینئر شمس الحق نے 2013ء کی عبوری نگران حکومت کے دوران وزیراعلیٰ خیبر پی کے کی حیثیت سے کالا باغ ڈیم کے مخالفین کو چیلنج کیا کہ وہ ان کے روبرو ثابت کریں کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے نوشہرہ کیسے ڈوبے گا۔ اس کے باوجود کالا باغ ڈیم کے مخالفین اپنے ایجنڈے پر کاربند رہے۔ اور اس حوالے سے سب سے افسوسناک یہ صورت حال ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں اٹھارہویں آئینی ترمیم کی متفقہ منظوری کی خاطر مسلم لیگ ن نے بھی اے این پی کی بلیک میلنگ میں آکر کالا باغ ڈیم کی فائل دریائے سندھ میں ڈبونے کے اس کے مطالبے کا ساتھ دیا۔
بھارت تو یقیناً پاکستان کو کمزور کرنے کے ایجنڈہ کے تحت پاکستان کے سیاستدانوں کے ذریعے کالا باغ ڈیم کی تعمیر رکوانے میں کامیاب رہا ہے جبکہ ہماری سیاسی قیادتوں نے خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار کر نہ صرف کالا باغ ڈیم تعمیر نہیں ہونے دیا بلکہ ضرورت کے دوسرے ڈیمز کی تعمیر کے لئے بھی کوئی عملی پیش رفت نہیں کی۔ نتیجتاً آج توانائی کے سنگین بحران کا بھی ہمیں سامنا ہے اور بھارت کو بھی پاکستان کی جانب پانی چھوڑ کر اسے سیلاب میں ڈبونے کا کم و بیش ہر سال نادر موقع مل جاتا ہے۔ آج یہ ارضِ وطن بھارت کے پانی چھوڑنے کے نتیجہ میں سیلاب سے ہونے والی جن تباہ کاریوں کا سامنا کر رہی ہے اور بھارت ہماری جانب مزید پانی چھوڑنے کے اعلانات بھی کر رہا ہے اس کی بنیاد پر تو سراسر قومی مفاد کے تحت تمام سیاسی قیادتوں کو بیک زبان ہو کر کالا باغ ڈیم سمیت ضرورت کے تمام ڈیمز تعمیر کرنے کا تقاضہ کرنا چاہیے ، چہ جائیکہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت کا راگ دوبارہ الاپنا شروع کر دیا جائے۔ یہ سیاست قومی مفادات کی نگہبانی کی سیاست ہر گز نہیں ہو سکتی۔ اس حوالے سے وزیراعلیٰ خیبر پی کے علی امین گنڈا پور نے درست موقف اختیار کیا ہے کہ کالا باغ ڈیم پر کوئی سیاسی اعتراض ہے تو اسے اتفاقِ رائے سے دور کرکے اس کی تعمیر شروع کر دینی چاہیے ۔ ہماری سیاسی قیادتوں کو قومی مفاد کے کسی منصوبہ کی اپنی کسی سیاست کے تحت مخالفت سے بہر صورت گریز کرنا چاہیئے۔ سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھ کر بھی کالا باغ ڈیم کی مخالفت کیا یہ قومی مفاد کی سیاست ہے؟
بشکریہ نوائے وقت
واپس کریں