
تحریک انصاف اوورسیز کے سب سے بڑے اور ہونہار رہنما زلفی بخاری صاحب نے فرمایا Suhail warraich is destroyed (سہیل وڑائچ تباہ ہوگیا) ۔ میرے خلاف پی ٹی آئی ٹرولز اور ڈالر کمانے والے وی لاگرز کی جانب سے ’’ٹاؤٹ‘‘ ،’’ فوج کا ایجنٹ‘، ’باتھ روم دھونے والا‘ کہہ کر چلائی جانے والی مہم کا میں نے بطور صحافتی روایت پانچ دن تک جواب نہیں دیا اور نہ ہی میری40سالہ صحافتی تاریخ کو مسخ کرنے والوں کو جواب دوں گا۔
ذاتی الزامات کے حوالے سے کسی تبصرے اور جواب کی ضرورت نہیں، آنے والا وقت اور لکھی جانے والی تاریخ ہر معاملے کو واضح کردے گی۔ میں نے زندگی میں لڑائی جھگڑے، تُو تُکار سے ہمیشہ اجتناب کیا ہے اور اب بھی بہت سوچنے سمجھنے کے بعد میری یہی رائے قائم ہے۔
جناب احمد شریف چوہدری کا میرے دل میں ذاتی احترام ہے. ذاتی ملاقاتوں میں وہ بہت خوش گوار ہیں مگر انہوں نے جن باتوں کی تردید کی ، ان کا ذکر مذکورہ کالم میں نہیں تھا، شاید انہوں نے غلط فہمی کی بنیاد پربات کی۔ اور اس کالم میں میرا کوئی ذاتی فائدہ ہو سکتا ہے؟
اگر اس حوالے سے کوئی سوال اب بھی موجود ہے تو میں اس کی وضاحت کے لیے ہمیشہ حاضر ہوں۔ انہوں نے مستند طور پر فرمایا کہ فیلڈ مارشل نے کوئی انٹرویو نہیں دیا، میرے پورے کالم کو دوبارہ پڑھ لیں اس میں کہیں لفظ انٹرویو استعمال ہی نہیں ہوا۔ میرے کالم کا عنوان ہی پہلی ملاقات ہے نہ کچھ اس سے زیادہ نہ اس سے کم۔ میں نے کہیں نہیں لکھا یہ ون ٹو ون ملاقات تھی۔ جس تقریب میں آٹھ سو حاضرین موجود تھے، نہ تو وہاں اور نہ ہی چند لوگوں کے سامنے کھانے پر ہونے والی گفتگو آف دی ریکارڈ تھی۔9مئی، عمران خان اور معافی کے حوالے سے وہاں کوئی بات نہیں ہوئی۔ یہ بات بالکل درست ہے۔
براہ کرم اس کالم کو دوبارہ پڑھ لیں ، اس میں سرے سے9مئی، عمران خان اور ان کی معافی کا کوئی ذکرنہیں۔ میں نے صرف ایک فقرہ لکھا کہ سیاسی مصالحت کے حوالےسے انہوں نے قرآن کی آیات اوران کاترجمہ پیش کیا، اب لوگوں اور ٹرولرز نےاس سے کیا تاثر لیا، وہ ان کی مرضی ہے ۔ گویا جن پوائنٹس کی اتنے بڑے پیمانے پر تردید کی گئی، ان کا تو ذکر فسانے میں کہیں تھا ہی نہیں۔ کسی کے اپنے ذہن میں ہو تو وہ اس کی مرضی پر منحصر ہے۔
بطور ادنیٰ ترین صحافتی کارکن میری رائے میں صحافت اورسیاست دونوں جمہوریت کی اولاد بھی ہیں اور پڑوسی بھی۔ مگر دونوں گھروں کے درمیان کوئی گھومنے والا دروازہ نہیں، ٹھوس دیوار ہے۔ اس مقدس دیوار کو پھلانگے بغیر عبور نہیں کیا جاسکتا۔
بدقسمتی سےسیاسی کارکنوں نے صحافت کی دیوار پھلانگ کر اس کے صحن کو رستہ بنالیا ہے۔ استاذی نصرت جاوید کے بقول ذات کارپورٹر ہوں، اس لئے میری حدود صحافیانہ ہیں، جو سنا اور جو دیکھا اس کو لکھ دیا۔ فیلڈ مارشل سے پہلی ملاقات کا احوال لکھنے پر تحریک انصاف کے نظریاتی لیڈر اور میرے ’’ دیرینہ مہربان‘‘ شہباز گل اور ملک کے جانباز ہیر وفیصل واوڈا دونوں واپس اسی ایک صفحے پر آگئے ، جب کبھی دونوں میں محبت ِعمران مشترک ہوا کرتی تھی، دونوں میرے کالم کو مسترد کرتے رہے ۔ انقلابی حماد اظہر، نونی متوالے اور جیالے سبھی مجھے خوشامدی اور جنگ جیو کو غیر ذمہ دار قرار دے رہے ہیں ۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ ان سب مہربانوں کے الزامات سوفیصد سچے ہیں، میں پرانا عادی مجرم ہوں ، ان سب کا میرے خلاف اکٹھ میری سیاہ کاری اور ان کی نیکوکاری کو ثابت کرتا ہے۔
میں ایک ادنیٰ اور عاجز قلم کار ہوں جبکہ میرے نقاد عہدے، رتبے اور عظمت میں مجھ سے کہیں بلند ترہیں، میں اقرار کرتا ہوں کہ میرے گناہوں کی ابتدا آج نہیں ہوئی۔ اب جبکہ میں معتوب، خوشامدی، غدار، ٹاؤٹ اور غیر ذمہ دار ٹھہر ہی گیا ہوں تو باقی جرائم کا اعتراف بھی کرلوں تاکہ سزا اکٹھی ہی مل جائے ۔ فیلڈ مارشل سےپہلی ملاقات والا کالم میرا پہلا جرم نہیں، اس عاجز نے80ء کی دہائی کے آخری برسوں میں جنرل ضیاء الحق کی محمدخان جونیجو کے خلاف چارج شیٹ انہی کی منہ زبانی شائع کی تھی، شیخوپورہ کے مدرسے میں ہونے والی اس تقریر میں لاہور کے بہت سےسینئر صحافی موجود تھے، انہوں نے مصلحتاً وہ فقرے رپورٹ نہیں کئے جو 1985ء کی اسمبلی کیخلاف تھے مگر مجھ سے سرزد ہوگئے، مجھے اس پربھی سزا ملنی چاہیے۔ ضیاءالحق نے بطور لیکچرارتونسہ ٹرانسفر کیا، اس کی کہانی الگ ہے. نواز شریف جلاوطن ہوئے تو انکا نام تک شائع کرنے پر پابندی تھی ،یہ سیاہ کار وہ پہلا صحافی تھا جس نے جدہ جاکر میاں نواز شریف سے ملاقات کی ،ان کا انٹرویو اور حالات روزنامہ جنگ کے میگزین میں شائع ہوئے تو جنرل مشرف نے خاصا برا منایا واقعی یہ ’’ خوشامد‘‘ تھی ،اس کی سزا بھی دیں۔ جنرل مشرف برسر اقتدار تھے تو میری نواز شریف کی کہانی انکی زبانی کے نام سے کتاب ’’ غدار کون‘‘شائع ہوئی، جنرل مشرف نے اس کیخلاف ڈیلی ٹائم میں انٹرویو دیا مگر جب جنرل مشرف اقتدار سے رخصت ہوئے تو لندن جاکر ان کا پہلا انٹرویو اسی خادم نے کیا۔
یادرہے کہ جب نواز شریف اور جنرل مشرف سے میں نے یہ انٹرویوز کیے، اس وقت دونوں جنگ اور جیو سے ناراض تھے، پھربھی یہ انٹرویوز شائع اور نشر ہوئے۔ جنرل باجوہ ملاقاتوں کے بہت شوقین تھے ، صحافی توانہیں کئی ملے ہوں گے مگر’’ باجوہ ڈاکٹرائن‘‘ لکھنے کا پہلا گناہ مجھ ہی سے سرزد ہوا ، پہلے روزجنرل باجوہ اس تحریر سے خوش ہوئے مگر ایک ہفتے بعد اس قدر ناراض ہوئے کہ وہ دن اور آج کا دن کبھی ملاقات تک نہیں ہوئی۔
نواز شریف کے دورِنصف النہارپر’’ پارٹی ازاوور‘‘ لکھا تونون ناراض ہوگئی اور جھوٹا قرار دیا ۔عمران خان کی حکومت کےبارے میں لکھا’’یہ کمپنی نہیں چلے گی‘‘ توانصافی ناراض ہوگئے، واقعی اس عاجز کے گناہ بے شمار ہیں۔ڈاکٹرقدیر خان کا فٹ پاتھ پر بیٹھ کر آخری انٹرویو بھی میںنے کیا تھا اس کی سزا بھی اب واجب ہے۔
باقی رہی برسلز کی ملاقات اس حوالے سےقرآنی آیات ،معافی ، فرشتے اور شیطان کی گفتگو یہ فیلڈ مارشل کی تقریر کا ایک ٹکڑا تھا، اس کی جو مرضی تاویل گھڑلیں، یہ آپکی مرضی ہے۔ میری ذاتی خواہش مصالحت اور ملکی استحکام کی ہے حالانکہ مجھے اڑھائی سال سے جوبھی معلومات حاصل ہیں، اس کے مطابق مفاہمت ،معافی اور کسی معاہدے کی دور دور تک گنجائش نہیں لیکن کیا کوئی گناہ گار اپنی خواہش کا اظہار بھی نہ کرے؟ اس لئے منفی سوچ اور منفی ہتھکنڈوں سے کچھ مثبت برآمد نہیں ہوسکتا ۔
فرض کریں اگر کسی کو میری بات سے اختلاف ہے تو کیا مجھے کہنے کا اختیار بھی نہیں ؟کیا یہ فاشسٹ رویہ نہیں کہ دوسروں کو الزامات اور دھمکیوں سے دبایا جائے، دراصل واوڈا، حماد اظہر اور چند یوٹیوبرکسی سیاسی یاصحافتی نرسری سے نہ پلے ہیں اور نہ ہی سیاسی اور صحافتی اصولوں کے قائل ہیں۔یہ سب ماضی کے عسکری فیض اسکول کے طالب علم رہے ہیں۔ اور شاید وہی دور واپس لانا چاہتے ہیں، میرے کالم پر ناک بھوں چڑھانے والے اپنا اپنا مقصد اور مفاد حاصل کرنے کیلئے من مانی تاویلیں اور مصنوعی تشریح کرتے رہیں۔جوں جوں وقت آگے بڑھے گا ،ہر ایک کی اصلیت کھلتی جائے گی ،تاریخ ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو جھوٹے دعووں، جعلی سچائیوں اور نام نہاد الزامات کو عریاں کرتی ہے۔ تاریخ کا فیصلہ صحافت ہی کے حق میں ہوگا۔
واپس کریں