دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
شہید رانا اسامہ شہزاد، شیخوپورہ کا فخر، قوم کا ہیرو
محمد ریاض ایڈووکیٹ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
کبھی کبھار تاریخ ایسے لمحے رقم کرتی ہے، جنہیں آنکھیں برسوں نہیں بھولتیں، اور دل صدیوں تک انہیں محسوس کرتا ہے۔ ایسا ہی ایک لمحہ شیخوپورہ کے بہادر سپوت، شہید رانا اسامہ شہزاد کی شہادت اور ان کا باوقار جنازہ تھا، جس نے نہ صرف ایک جوان کے فخر کا اعلان کیا بلکہ پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ وزیرستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں جاری ردِ فتنہ الاخوارج آپریشن کے دوران، رانا اسامہ شہزاد نے اپنی جان وطن پر نچھاور کر دی۔ ان کی شہادت ہمیں ایک بار پھر یہ باور کرا گئی کہ مٹی کے یہ بیٹے اگر نہ ہوتے، تو شاید ہم کبھی چین کی نیند نہ سو سکتے۔ ان کے جنازے کا منظرابھی بھی دل و دماغ میں تروتازہ ہے۔ عام طور پر جنازے غم، صدمے اور افسوس کی علامت ہوتے ہیں، مگر رانا اسامہ کا جنازہ ایک عظیم قوم کے زندہ ہونے کی علامت تھا۔ جہاں آنکھیں نم تھیں، وہیں دلوں میں فخر کا سمندر موجزن تھا۔ ہر چہرہ، ہر نگاہ ایک ہی پیغام دے رہی تھی: شہادت ہماری میراث ہے، ہم سرخرو ہیں!
عمومی طور پر نمازِ جنازہ میں شرکت کا مقصد مرحوم کی مغفرت کیلئے دعا کرنا ہوتا ہے مگر یقین مانیں اس شہید کی نماز جنازہ میں شرکت کا مقصد اپنی بخشش کے لئے سامان اکٹھا کرنا تھا۔ اپنے گھر کی بات کروں تو میرے گھر میں جیسے ہی شہادت کی خبر پہنچی، پورا ماحول عجیب جذبے سے لبریز ہو گیا۔ ہم چاروں بھائی، والد محترم، میرا نوعمر بیٹا اور یہاں تک کہ والدہ محترمہ بھی اس شہید کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے لیے تیار ہو گئیں۔ والدہ کو جناز گاہ سے تھوڑا ہٹ کر گاڑی میں ہی بٹھا دیا، مگر اُن کی آنکھیں شہید کے متبرک جسد خاکی کو دیکھ کر سکون کی تصویر تھیں۔ نماز جنازہ میں شہر کی ہر اہم شخصیت، ہر مکتبہ فکر، ہر طبقے کے لوگ شریک تھے۔ فوجی افسروں اور جوانوں کی موجودگی نے فضا کو مزید پرعزم کر دیا۔ کوٹ رنجیت سنگھ موٹر وے انٹرچینج کے قریب نماز جنازہ ادائیگی کے دوران ٹریفک دونوں اطراف سے بند، ہر طرف انسانوں کا سمندر، دلوں میں ولولہ اور آنکھوں میں یہ سوال: ''کاش ہم بھی رانا اسامہ ہوتے!
مگر اس جذبے کے بیچ ایک تلخ حقیقت بھی چھپی ہوئی ہے۔ ایک طرف ہماری پاک افواج کے جوان سینے پر گولیاں کھا رہے ہیں، مائیں بیٹے قربان کر رہی ہیں، مگر دوسری طرف کچھ سیاسی و مذہبی عناصر ایسے گروہوں کی حمایت کر رہے ہیں جو انہی فوجیوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگتے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان جیسے خوارج کو کبھی ''بھٹکے ہوئے بھائی'' کہہ کر پکارا جاتا ہے، تو کبھی ان کے خلاف زبان کھولنے سے اجتناب کیا جاتا ہے۔ یہ دوغلا پن صرف مایوس کن نہیں، بلکہ مجرمانہ ہے۔رواں برس ماہ مئی میں پاک بھارت جنگ میں بھی پوری قوم نے ایسے افراد کی منافقت کو آشکار ہوتے دیکھا تھا جب بھارتی الیکٹرانک و سوشل میڈیا اور ان بدبخت لوگوں کا سوشل میڈیا پاکستانی ریاست اور پاک افواج کے خلاف ایک جیسی غلیظ زبان اور پروپیگنڈا مہم چلارہے تھے۔
حیرت ہوتی ہے جب یہی عناصر فلسطین، شام، عراق، قطر اور افغانستان میں ہونے والے واقعات پر سینہ کوبی کرتے ہیں، مگر اپنے ملک میں شہید ہونے والے فوجی، پولیس اہلکار اور عام شہری ان کے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑتے۔ فلسطین میں حماس کی حمایت پر لمبی لمبی تقریریں، پریس ریلیزیں، اخباری بیانات، جلسے جلوس سب کچھ ہوتا ہے، مگر رانا اسامہ جیسے سپوتوں کے لیے دو لفظ بھی نہیں۔ حتیٰ کہ فلسطینی صدر محمود عباس خود کہہ چکے ہیں کہ حماس والے کتے کے بچے ہیں اور یہ کہ حماس کی پالیسیوں نے فلسطین و غزہ میں امن کو تباہ کیا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں حماس کی حمایت کرنا گویا ایمان کا تقاضا بنا دیا گیا ہے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے: کیا ہمارا ضمیر صرف غیر ملکی مظلوموں کے لیے جاگتا ہے؟ کیا ہمارے اپنے شہداء، یتیم، بیوائیں، اور ماؤں کی چیخیں بے معنی ہو چکی ہیں؟ ایسے رویے صرف منافقت نہیں، یہ درحقیقت قوم کی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہیں۔ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہمیں صرف اُن کی شہادت پر آنسو بہانے ہیں جو کسی اور سرزمین پر مارے جائیں، یا ہم اپنے شہیدوں کو بھی ویسا ہی مقام دیں گے جیسے کہ ان کا حق ہے؟
رانا اسامہ کی شہادت ہمیں صرف رُلانے کے لیے نہیں، جگانے کے لیے ہے۔ یہ جنازہ صرف ایک نوجوان کا نہیں، پوری قوم کی غیرت کا امتحان تھا۔ اور اس دن شیخوپورہ نے، پاکستان نے، یہ امتحان خوبصورتی سے پاس کیا۔ مگر امتحان ابھی ختم نہیں ہوا۔ روز ایک نیا اسامہ، ایک نیا سپاہی، ایک نیا شہید ہمیں جگانے آتا ہے۔ یہ ہم پر ہے کہ ہم ان کی قربانیوں کو کس زاویے سے یاد رکھتے ہیں۔ اے وطن کے شہیدو! تم پر لاکھوں سلام۔ تمہارا لہو ہماری آزادی کا کفارہ ہے۔ تمہارے جنازے ہمارے حوصلے، تمہاری شہادتیں ہماری غیرت کی دلیل ہیں۔ ہم شرمندہ ہیں، لیکن جاگ رہے ہیں۔ اور وعدہ کرتے ہیں کہ تمہاری قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست پاکستان فتنہ خوارج کے ساتھ ساتھ انکے حماتیوں کو بھی نکیل ڈالے، جو خوارج کے خلاف آپریشن کی مخالفت کرتے ہیں۔ شہید کی جو موت ہے، وہ قوم کی حیات ہے۔ پاکستان زندہ باد!!!
واپس کریں