دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سمندر پار پاکستانیوں کے لیے سپریم کورٹ کا انقلابی اقدام
محمد ریاض ایڈووکیٹ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں فاصلے سمٹ رہے ہیں، سرحدیں محض نقشوں تک محدود ہو چکی ہیں، اور ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک گلوبل گاؤں میں تبدیل کر دیا ہے۔ ایسے میں ریاستی ادارے اگر اب بھی پرانے فرسودہ طریقہ کار سے چمٹے رہیں تو نہ صرف ریاست کا نظام متاثر ہوتا ہے بلکہ عوام کا اعتماد بھی مجروح ہوتا ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام، خاص طور پر سپریم کورٹ آف پاکستان، اب جدید تقاضوں کو نہ صرف سمجھ رہا ہے بلکہ ان کو عملی جامہ پہنانے میں بھی پیش پیش ہے۔ ڈیجیٹل پاکستان کے خواب کی تعبیر کی جانب بڑھتے ہوئے ملک کے اعلیٰ عدالتی اداروں نے ای فائلنگ، کیس مینجمنٹ، آن لائن دستاویزات کی ترسیل اور ورچوئل سماعتوں جیسے کئی اہم اقدامات کیے ہیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں جو اقدام سب سے زیادہ قابلِ ستائش اور انقلابی حیثیت رکھتا ہے، وہ ہے سپریم کورٹ کی جانب سے ''اوورسیز لٹیگیشن فسیلیٹیشن سیل (OLFC)'' کا قیام۔یاد رہے پاکستان کی کچھ ہائیکورٹس میں یہ سیل جزوی سہولیات کے ساتھ موجود ہیں، جو سمندر پار پاکستانیوں کی قانونی چارہ جوئی میں مدد فراہم کررہی ہیں۔
پاکستان سے باہر بسنے والے پاکستانیوں کی تعداد تقریباً 90 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو روزگار، تعلیم یا دیگر وجوہات کی بنیاد پر بیرونِ ملک قیام پذیر ہیں، لیکن ان کی جڑیں پاکستان سے مضبوطی سے جڑی ہوئی ہیں۔ وہ ہر سال اربوں ڈالرز کی ترسیلات زر کے ذریعے ملکی معیشت کو سہارا دیتے ہیں، جس کی بدولت ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہوتا ہے اور زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہوتے ہیں۔ مگر جب بات ان کے قانونی حقوق، جائیداد کے تحفظ، یا عدالتی کاروائیوں میں شمولیت کی آتی ہے تو صورتحال خاصی پیچیدہ ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں موجود عدالتی نظام کے پیچیدہ مراحل، فاصلے، زبان کی رکاوٹ، وقت کی قلت، اور معلومات کے فقدان جیسے کئی مسائل ان کے لیے انصاف تک رسائی کو مشکل بلکہ اکثر ناممکن بنا دیتے ہیں۔ یہی وہ خلا تھا جسے سپریم کورٹ نے بخوبی محسوس کیا اور ایک نہایت مؤثر اور دیرپا حل فراہم کیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی ہدایت پر قائم ہونے والا اوورسیز لٹیگیشن فسیلیٹیشن سیل (OLFC) ایک غیر معمولی اقدام ہے، جو بظاہر ایک سیل ہے لیکن درحقیقت یہ ایک پورا نظام ہے جو دیارِ غیر میں بیٹھے پاکستانیوں کو براہِ راست سپریم کورٹ کے نظامِ انصاف سے جوڑتا ہے۔ یہ سیل اسلام آباد میں سپریم کورٹ کی پرنسپل سیٹ پر قائم کیا گیا ہے، اور اس کی نگرانی چیف جسٹس آف پاکستان کے پرنسپل اسٹاف آفیسر کے ذمہ ہے۔ یہ نہ صرف شکایات وصول کرے گا بلکہ ان پر موثر کارروائی کو بھی یقینی بنائے گا۔ اس اقدام کے تحت اوورسیز پاکستانی بغیر پاکستان آئے ڈیجیٹل ذرائع سے انصاف کے حصول کی جانب پیش قدمی کر سکتے ہیں۔
یہ سیل درج ذیل اہم سہولیات فراہم کرے گا:
1۔ آن لائن درخواست اور شکایات کا اندراج: بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اب سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر مخصوص پورٹل کے ذریعے اپنی پٹیشنز، اپیلز اور شکایات جمع کروا سکتے ہیں۔
2۔ جلد سماعت کی درخواست: اگر کسی مقدمے میں وقت کی حساسیت ہو تو فریقین آن لائن درخواست دے کر سماعت میں ترجیح حاصل کر سکتے ہیں۔
3۔ مقدمے کی پیش رفت اور عدالتی احکامات تک رسائی: ہر کیس کی تازہ ترین پیش رفت، فیصلے اور عدالتی احکامات کی مصدقہ نقول الیکٹرانک فارمیٹ میں سائلین کو مہیا کی جائیں گی۔
4۔ ڈیجیٹل ریکارڈ کا قیام: تمام کیسز کا ریکارڈ ڈیجیٹائز کر کے ایک مرکزی ڈیٹا بیس میں محفوظ کیا جائے گا، جس کی رپورٹس باقاعدگی سے چیف جسٹس کو ارسال کی جائیں گی۔
5.رابطے کے متبادل ذرائع: سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پرOLFCکے پورٹل کے علاوہ WhatsApp نمبر: 03264442444 کے ذریعے بھی درخواست دہندہ براہِ راست رابطہ کر سکتا ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ سیل صرف سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں کام کرے گا۔ آئینی طور پر ہائیکورٹس اور ماتحت عدالتیں سپریم کورٹ کے تابع نہیں، اس لیے OLFC کا اطلاق صرف سپریم کورٹ کی سطح تک محدود رہے گا۔
یہ قدم ایک واضح اور طاقتور پیغام دے رہا ہے: آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں کیوں نہ ہوں، پاکستان کی سب سے بڑی عدالت آپ کی آواز سننے کو تیار ہے۔ یہ صرف قانونی رابطہ نہیں بلکہ ریاست اور اوورسیز پاکستانیوں کے درمیان اعتماد، عزت، اور شمولیت کا نیا باب ہے۔ OLFC کی مدد سے اوورسیز پاکستانی اب نہ صرف اپنے مقدمات کی پیش رفت جان سکیں گے بلکہ وہ خود کو پاکستانی عدالتی نظام کا باقاعدہ حصہ محسوس کریں گے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ دیگر ادارے بھی اس وژن کو اپنائیں اور اوورسیز پاکستانیوں کے لیے مخصوص سہولتی مراکز قائم کریں تاکہ سمندر پار پاکستانیوں کا یہ قیمتی اثاثہ خود کو ریاستی نظام سے جڑا ہوا محسوس کرے۔ سپریم کورٹ کا OLFC نہ صرف ایک انصاف پر مبنی اقدام ہے بلکہ یہ ڈیجیٹل پاکستان کی تعبیر کی جانب ایک نمایاں پیش رفت بھی ہے۔ یہ اقدام ثابت کرتا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی صرف سہولت نہیں بلکہ سماجی انصاف کی فراہمی کا اہم ذریعہ بن سکتی ہے۔ اگر یہ نظام مؤثر انداز میں جاری رہا تو امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام وقت کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر ایک نئی تاریخ رقم کرے گا۔
واپس کریں