دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
موروثیت یا کارکردگی؟ مریم نواز کا امتحان‎
محمد ریاض ایڈووکیٹ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
پاکستانی سیاست میں موروثیت ایک پرانی مگر تلخ حقیقت ہے۔ برسوں سے یہ چلن رہا ہے کہ قیادت کا حق صرف ان خاندانوں کو سمجھا گیا جن کے نام اور اثر و رسوخ پر سیاسی جماعتیں پروان چڑھتی رہی ہیں۔ بھٹو سے لے کر شریف خاندان تک، ہم نے سیاست کو وراثت میں بانٹتے دیکھا ہے۔ اسی لیے جب مریم نوازشریف نے پنجاب جیسے اہم ترین صوبے کی وزارتِ اعلیٰ سنبھالی، تو ایک فطری ردِ عمل سامنے آیا کہ یہ موروثیت کی تازہ مثال ہے۔ خود میرے لیے بھی یہ امر قابلِ قبول نہ تھا، کہ قیادت صرف نسب کی بنیاد پر کسی کو سونپی جائے۔ مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ صرف ''غیر موروثی'' ہونے کی بنیاد پر ہم نااہل لوگوں کی حمایت کرنے لگیں۔ عثمان بزدار جیسے نام نہاد سادہ اور ''خالص'' لوگ بھی ہم آزما چکے ہیں۔ جسکا نتیجہ صفر نکلا۔
پنجاب کو جس نالائقی کے دور سے عثمان بزدار کے زمانے میں گزرنا پڑا، وہ آج بھی ایک سیاسی المیہ کی صورت یاد کیا جاتا ہے۔ انہیں وسیم اکرم پلس کہا گیا، مگر وہ نہ گیند پھینک سکے، نہ وکٹ لے سکے۔ ان کے دور میں بیوروکریسی آزاد ہی نہیں بلکہ بے لگام ہو چکی تھی۔ صوبہ جمود کا شکار رہا، ترقیاتی منصوبے کاغذوں سے آگے نہ بڑھ سکے، اور عوامی فلاح کا کوئی واضح وژن نظر نہ آیا۔ بزدار کی حکومت نے ثابت کر دیا کہ محض عاجزانہ مزاج یا پارٹی وفاداری قیادت کے لیے کافی نہیں۔ اگر پنجاب جیسے حساس اور پیچیدہ صوبے کو سنبھالنا ہے تو قیادت میں فیصلہ سازی کی صلاحیت، ایڈمنسٹریٹو کنٹرول اور ویژن ہونا لازمی ہے۔
جب مریم نوازشریف نے وزیراعلیٰ کا منصب سنبھالا تو توقعات اور تنقید دونوں اپنے عروج پر تھیں۔ ایک طرف ان کا سیاسی بیک گراؤ نڈ، دوسری طرف شریف خاندان کی حکومتی وراثت۔ مگر جو چیز نمایاں ہوئی، وہ تھا ان کا فعال طرزِ حکمرانی۔ روزانہ کی بنیاد پر میٹنگز، افسران کی کارکردگی پر نظر، ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ، اور بیوروکریسی کو متحرک کرنے کی کوشش۔یہ تمام وہ اقدامات ہیں جو ماضی میں شہباز شریف کے طرزِ عمل کی جھلک دیتے ہیں۔ ماضی میں پنجاب کی بیوروکریسی اکثر اپنی مرضی کی مالک رہی ہے۔ کبھی سیاسی آشیر باد سے، اور کبھی انتظامی غفلت سے۔ مگر حالیہ مہینوں میں یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ افسران اپنے کام کے حوالے سے جواب دہ ہورہے ہیں۔ کئی ڈی سی، سی ای او، اور دیگر اہم عہدیداروں کو صرف اس بنیاد پر معطل یا تبدیل کیا گیا کہ وہ کارکردگی نہ دکھا سکے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ صوبائی مشینری میں تبدیلی کا پہلا قدم ہی یہ ہوتا ہے کہ افسر شاہی کو باور کرا دیا جائے کہ لاپروائی اب برداشت نہیں ہوگی۔تجزیہ کاروں کے نزدیک بظاہر بیوروکریسی کو ''نتھ ڈالی '' جارہی ہے۔جس میں ابھی مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے۔
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ عوام اب صرف فوٹو سیشنز، اچانک دوروں یا بیانات سے متاثر نہیں ہوتی۔ حقیقی معیار وہی ہے جو عوام کی زندگیوں میں تبدیلی لائے۔ تعلیم، صحت، روزگار، امن و امان، صاف پانی، اور مہنگائی ایسے بنیادی مسائل پر مستقل اور مؤثر پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ اگر مریم نواز ان شعبوں میں ٹھوس پیش رفت کر پاتی ہیں تو وہ نہ صرف نواز شریف اور شہباز شریف کی جانشین بلکہ ایک مؤثر وزیراعلیٰ بھی کہلا سکتی ہیں۔ ورنہ ان کا اقتدار بھی چند خبروں اور سوشل میڈیا کلپس تک محدود ہو جائے گا۔
یہ سوال اب تک زیرِ بحث ہے کہ کیا مریم نواز واقعی خاندانی سیاست کی پیداوار ہیں یا وہ اس دائرے سے نکل کر عوامی نمائندہ بننے جا رہی ہیں؟ ابتدائی کارکردگی دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ وہ بھرپور کوشش کر رہی ہیں۔ ان کا انداز جارحانہ ہے، خوداعتمادی واضح ہے، اور بیوروکریسی پر گرفت بھی دکھائی دے رہی ہے۔بظاہر مریم نواز شریف موروثیت کے داغ کو دھوتی ہوئی مضبوط قیادت کی طرف بڑھتی دیکھائی دے رہی ہیں، مگر سیاست میں اصل معیار نتائج ہوتے ہیں۔ وقت ہی فیصلہ کرے گا کہ یہ متحرک طرز حکمرانی کتنی دیر برقرار رہتا ہے اور اس کا ثمر عوام تک پہنچتا ہے یا نہیں۔
آپکا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے کیوں نہ ہو، یہ بات تو طے شدہ ہے کہ صوبہ پنجاب کی عوام عثمان بزدار اور علی امین گنڈاپور ایسے افرادکی حاکمیت کی مستحق نہیں۔یہ بات کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ صوبہ پنجاب سمیت پاکستان کے تمام صوبے بطور وزیر اعلیٰ شہباز شریف جیسی طرز حکومت کے مستحق ہیں۔
حکمرانوں کی تعریف یا تنقید صرف اپنی اپنی سیاسی جماعت کی وابستگی کی بنیاد پر نہیں ہونی چاہیے۔بلکہ تعریف و تنقید کا معیاد صرف اور صرف کارکردگی ہونا چاہیے۔ بہترین کارکردگی ہی سیاسی لیڈرشپ کی اصل شناخت ہے۔ پنجاب کے تیرہ کروڑ عوام اب بھی اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں ایک ایسی قیادت ملے جو صرف نام کی نہیں، بلکہ صرف کام کی ہو۔ اگر مریم نواز اس امتحان میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو وہ محض ''نواز شریف کی بیٹی'' نہیں بلکہ ''عوام کی وزیراعلیٰ'' بن کر سامنے آئیں گی اور یہی بات کسی بھی جمہوری نظام کی اصل روح ہے۔
واپس کریں