دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
غزہ کی بربادی کا ذمہ دار کون؟
محمد ریاض ایڈووکیٹ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
اکتوبر 2023 حماس نے اسرائیلی علاقوں میں اچانک حملہ کیا، جس میں عام شہری ہدف بنے۔ امریکہ اور یورپی ممالک نے فوری طور پر اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کیا، جبکہ دوسری جانب پاکستان سمیت کئی مسلم ممالک کی عوام نے اس حملے کو ”اسلامی فتح“ قرار دے کر جشن منایا۔ سوشل میڈیا پر مبارک بادوں، نعروں اور پوسٹروں کی بھرمار تھی۔ اسی دن بندہ ناچیز نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر لکھا تھا: "ایسا کیوں محسوس ہو رہا ہے کہ اسرائیل نے حماس کو جان بوجھ کر حملے کا موقع فراہم کیا اور عالمی حمایت حاصل کرکے فلسطین کو غزہ کی پٹی سے بھی محروم کردیا جائے گا"۔ آج ستر ہزار سے زائد بے گناہ فلسطینی شہید ہو چکے، ہزاروں اپاہج اور غزہ برباد ہوچکا جبکہ مستقبل میں یہ علاقہ عالمی طاقتوں کے زیر اثر جانے کی شنید ہے۔ افسوس کہ دو سال بعد میرا یہ خدشہ ایک تلخ حقیقت بن چکا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں حماس قیادت چُن چُن کر ختم کردی گئی۔ اسی دوران ایران، قطر، شام، لبنان اور یمن جیسے ممالک بھی اسرائیلی جارحیت کی زد میں آئے۔ اور بالآخر، اتنی قربانیوں کے بعد، امریکی سرپرستی میں حماس اسرائیل کے ساتھ ایک ذلت آمیز امن معاہدے پر رضامند ہو چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہزاروں جانوں اور تباہ شدہ غزہ کے بعد اس معاہدے کا حاصل کیا ہے؟
یہ وہ سوال ہے جو آج ہر صاحبِ شعور کے ذہن میں گونج رہا ہے کہ غزہ کی اس تباہی کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ کیا اس کا تمام ملبہ صرف اسرائیل پر ڈالا جا سکتا ہے؟ یا پھر حماس کی ناعاقبت اندیشی، جذباتیت اور ناقص منصوبہ بندی نے بھی اس المناک انجام میں کردار ادا کیا؟
جب حماس نے اسرائیلی شہریوں پر حملہ کیا تو کیا اس نے سوچا تھا کہ وہ اسرائیل جیسی جدید، تربیت یافتہ اور طاقتور فوجی ریاست سے طویل جنگ لڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ کیا اس کے پاس حملے کے بعد کوئی واضح حکمتِ عملی موجود تھی؟ یا یہ سارا عمل وقتی جوش اور جذباتی نعرہ بازی کا نتیجہ تھا؟ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اسرائیل کے پاس جدید اسلحہ، بے مثال انٹیلی جنس نیٹ ورک، اور امریکہ و مغرب کی کھلی حمایت موجود ہے۔ ایسے میں حماس کا حملہ گویا ایک چنگاری تھی جس نے پورے غزہ کو آگ کے سمندر میں جھونک دیا۔ اسرائیل نے موقع غنیمت جانا، عالمی سطح پر خود کو مظلوم ثابت کیا، اور مغربی طاقتوں کی غیر مشروط حمایت حاصل کر لی۔ عالمی میڈیا نے بھی اسرائیلی بیانیے کو تقویت دی۔ فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رہی، مگر دنیا بھر میں ان کی آواز کمزور پڑتی گئی۔ عرب ممالک کی حکومتیں بیانات اور قراردادوں تک محدود رہیں، اور مسلم دنیا خصوصا پاکستانی عوام احتجاج، کولڈ ڈرنکس، برگر پیزا ایسی اشیاء خوردونوش کے بائیکاٹ اور سوشل میڈیا مہمات تک محدود رہے۔ نہ اسرائیل کی معیشت پر کوئی اثر پڑا، نہ بمباری رکی، نہ ہی عالمی ضمیر جاگا۔
فلسطینی صدر محمود عباس کے ایک بیان نے اُس وقت شدید تنقید سمیٹی، جب انہوں نے کہا تھا: "حماس کے اقدامات نے اسرائیل کو قتلِ عام کا جواز فراہم کر دیا ہے"۔ یہ جملہ بظاہر سخت لگتا ہے، مگر اس میں حقیقت کا عنصر موجود ہے۔ حماس ایک ایسی تنظیم جو اپنی عوام کو جنگ میں جھونک دے، مگر ان کے تحفظ کی ضمانت نہ دے سکے، جو جذباتی فیصلے کرے مگر سفارتی سطح پر کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکے۔ کیا وہ واقعی قیادت کی اہل ہے؟
اسلام ہمیں صرف جوش نہیں بلکہ حکمت، صبر اور تدبیر سکھاتا ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ نے مدینہ کی ریاست کسی ایک حملے سے نہیں، بلکہ برسوں کی دانش، مذاکرات اور منصوبہ بندی سے قائم کی۔ صلح حدیبیہ بظاہر کمزور معاہدہ تھا، مگر وہ اسلام کی فتح کی بنیاد بن گیا۔ اگر حماس واقعی فلسطینی عوام کی نمائندہ تنظیم تھی تو اسے اسی حکمتِ نبوی ﷺ سے رہنمائی لینی چاہیے تھی۔ زمانہ جدید میں آزاد وطن حاصل کرنے کی مثال دیکھنی ہوتو قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں غیر مسلح جددجہد تحریک پاکستان کو دیکھ لیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں جیتی جاتی بلکہ عقل، اتحاد اور بین الاقوامی حمایت سے جیتی جاتی ہے اور یہی تین عناصر حماس کے دامن میں نہیں تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج غزہ کی گلیاں کھنڈر بن چکی ہیں، بچے کچرے کے ڈھیر سے خوراک تلاش کرتے ہیں، عورتیں لاشوں پر بین کر رہی ہیں، اور دنیا محض افسوس کے بیانات پر اکتفا کر رہی ہے۔
یہی وہ لمحہ ہے جہاں ہمیں جذباتی نعروں سے نکل کر حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا۔ غزہ کی بربادی کا ذمہ دار صرف اسرائیل نہیں؛ حماس کی غلط حکمتِ عملی، عرب ممالک کی بے حسی، اور امتِ مسلمہ کی اجتماعی کمزوری سب برابر کے شریک ہیں۔ اگر اسرائیل ظالم ہے تو حماس بھی ناقص قیادت اور کمزور منصوبہ بندی کی ایک عبرتناک مثال بن چکی ہے۔ حقیقی مزاحمت کا مطلب دشمن پر حملہ کر کے اپنے عوام کو بمباری کے دہانے پر لا کھڑا کرنا نہیں، بلکہ دشمن کو سیاسی، سفارتی اور معاشی سطح پر شکست دینا ہے۔ دنیا کی جنگیں اب میدانوں میں نہیں بلکہ معیشت، سفارت اور میڈیا کے محاذوں پر لڑی جا رہی ہیں اور بدقسمتی سے امتِ مسلمہ ان تینوں میدانوں میں کمزور ہے۔
پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کو سمجھنا ہوگا کہ صرف نعرے، جلسے، ریلیاں، کولڈ ڈرنکس اور برگرپیزا بائیکاٹ حقیقی تبدیلی نہیں لاتے۔ جب تک مسلمان اقوام معاشی طور پر خودمختار، سیاسی طور پر متحد، اور سفارتی سطح پر فعال نہیں ہوتیں، تب تک فلسطین ہو یا کشمیر، ایسے سانحات دہر ائے جاتے رہیں گے۔ آزادی کے لیے صرف جذبہ نہیں، تدبیر اور عمل درکار ہے۔ آج غزہ کے ملبے تلے دفن صرف انسانی جانیں نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کی اجتماعی ناکامی بھی ہے۔ یہ المیہ ہمیں چیخ چیخ کر یاد دلا رہا ہے کہ جذباتی فیصلے قوموں کو برباد کر دیتے ہیں۔ اللہ کریم کشمیری، فلسطینی مسلمانوں کو آزادی کی نعمت عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
واپس کریں