محمد ریاض ایڈووکیٹ
جمہوری معاشروں میں ہر شہری کو اپنی آزادانہ سیاسی رائے رکھنے اور کسی بھی جماعت سے وابستگی کا حق حاصل ہے۔ آپ پنجاب کی حکومت کو پسند کریں یا نہ کریں، لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ پنجاب حکومت کے کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (سی سی ڈی) کی کارکردگی نے نہ صرف پنجاب بلکہ پورے ملک کی عوام کو متاثر کیا ہے۔ آج سی سی ڈی پر آنکھیں بند کرکے بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ کچھ حلقے سی سی ڈی کے اقدامات کو خلافِ قانون قرار دیتے ہیں۔ ان کی رائے کا احترام اپنی جگہ، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا موجودہ نوآبادیاتی نظامِ انصاف مظلوم کو بروقت انصاف فراہم کرتا ہے؟ افسوس کہ کئی بار زنا بالجبر جیسے سنگین جرائم میں بھی مجرم باعزت بری ہوجاتے ہیں۔ ایسے میں سرراہ لڑکیوں کے چھیڑنے ایسے واقعات میں مظلومہ انصاف کہاں حاصل کر پائے گی؟ یہی وجہ ہے کہ پنجاب کی اکثریت نے سی سی ڈی کارروائیوں پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ بڑے بڑے ڈکیت، قاتل، اشتہاری اور غنڈے اپنے جرائم پر معافی مانگتے ویڈیوز جاری کرنے پر مجبور ہیں۔ کچھ خانہ کعبہ میں جا کر توبہ کرتے بھی دکھائی دیے۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ مجرموں کے خلاف دبنگ کارروائیوں نے عوام کا اعتماد بحال کیا ہے۔ خاص طور پر ان بے غیرت مردوں کے خلاف کاروائیاں قابلِ تحسین ہیں جو سڑکوں یا عوامی مقامات پر خواتین کو ہراساں کرنے کی گھٹیا حرکت کرتے ہیں۔ یہ اقدامات اس لیے بھی اہم ہیں کہ ہماری بہنوں، بیٹیوں اور ماؤں کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔ یہی ماڈل دیگر صوبوں کے لیے بھی قابلِ تقلید ہے تاکہ وہاں بھی خواتین کو بااعتماد اور محفوظ ماحول میسر آئے۔
سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ نظروں سے گزری جس میں درج تھا کہ شادی ہال کی کرسیاں خواتین سے زیادہ ''باپردہ'' ہوتی ہیں۔ حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ شادیوں میں شریک خواتین زیادہ تر قریبی رشتہ دار ہی ہوتی ہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ آخر وہ کون لوگ ہیں جو باپردہ خواتین کو بھی نہیں بخش رہے؟ سوشل میڈیا پر جاری ویڈیوز دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ چھیڑی جانے والی بچیاں، خواتین کی اکثریت مکمل باپردہ ہوتی ہے۔ اور چھیڑنے والوں میں دنیاوی اعتبار سے اعلی تعلیم یافتہ اور دینی تعلیم کے اعتبار سے حافظ قرآن بھی تھے۔ اس سے بظاہر واضح ہوتا ہے کہ مسئلہ پردے کا نہیں بلکہ مردوں کی بے غیرتی اور گھٹیا ذہنیت کا ہے۔
زیادتی اور بدسلوکی کے واقعات صرف عوامی مقامات تک محدود نہیں بلکہ دینی اداروں میں بھی ایسے واقعات کی ایف آئی آر میڈیا پر منظرعام پر آتی ہیں۔ وہاں بھی معصوم بچوں کو ایسے افراد نشانہ بناتے ہیں جو بظاہر دین کے خادم یا حافظِ قرآن کہلاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی آئے روز ایسے واقعات میڈیا پر رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بے غیرتی کا تعلق نہ داڑھی سے ہے اور نہ کسی مذہبی شناخت یا غیر مذہبی شناخت سے، بلکہ یہ ایک اخلاقی بیماری ہے جس پر قانون کی سختی اور سماجی بیداری کے ذریعے قابو پانے کی ضرورت ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ایک لڑکی اور کتنا پردہ کرے تاکہ وہ ان بے غیرت مردوں سے محفوظ رہ سکے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیوں میں جہاں بچیوں کو پردے کی تعلیم دی جاتی ہے، وہاں لڑکوں کو بھی حیا اور کردار کی تربیت دی جائے۔ ہمارے واعظین اور علما اکثر خواتین کو پردے کی تلقین کرتے ہیں، جو بالکل درست ہے۔ لیکن ان ویڈیوز کو دیکھ کر انہیں یہ حقیقت بھی تسلیم کرنی چاہیے کہ اصل مسئلہ مردوں کی نظروں کو جھکانے اور کردار میں پاکیزگی لانے کا ہے۔ قرآن و حدیث میں خواتین کے پردے کے ساتھ ساتھ مردوں کے لیے بھی نگاہیں جھکانے کا حکم دیا گیا ہے، مگر افسوس یہ پہلو اکثر نظرانداز ہوجاتا ہے۔ علمائے کرام کو چاہیے کہ جمعہ کے خطبات میں خواتین کے پردے کے ساتھ ساتھ مردوں کے لیے بھی حیا اور کردار سازی پر زور دیں۔
سی سی ڈی نے ثابت کیا ہے کہ اگر ریاست اور ادارے نیک نیتی اور حوصلے کے ساتھ مجرموں کے خلاف کھڑے ہوں تو معاشرے میں مثبت تبدیلی ممکن ہے۔ پنجاب پولیس اور سی سی ڈی کی یہ کاوشیں نہ صرف عوامی اعتماد کی بحالی ہیں بلکہ معاشرتی اصلاح کی جانب بھی اہم قدم ہیں۔ یاد رہے مظلوم کو فوری اور سستا انصاف چاہیے۔ آج جب کوئی بدبخت سی سی ڈی کے ہاتھوں انجام تک پہنچتا ہے تو مظلوم، اسکے خاندان اور اہل علاقہ کی جانب سے بے ساختہ یہ نعرے سننے کو ملتے ہیں کہ:
پنجاب پولیس زندہ باد
سی سی ڈی زندہ باد
واپس کریں