محمد ریاض ایڈووکیٹ
قرآنِ مجید انسان کی تخلیق کو اللہ کی عظیم قدرت قرار دیتا ہے۔ سورۃ ُ التّین میں ربِ کائنات فرماتا ہے کہ ’یقیناً ہم نے انسان کو بہترین ساخت میں پیدا کیا۔ سورۃ بنی اسرائیل میں مزید ارشاد فرمایا: یقیناً ہم نے اولادِ آدم کو عزت بخشی۔ یعنی انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت دی گئی مگر یہ فضیلت صرف جسمانی ساخت یا ذہنی صلاحیتوں کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اخلاقی و روحانی خوبیوں کی بنیاد پر عطا کی گئی ہے۔ تاہم، قرآنِ حکیم اسی انسان کے بارے میں یہ بھی فرماتا ہے: ”اور انسان سب چیزوں سے زیادہ جھگڑالو ہے(سورۃ الکہف:)۔“ ارشاد رب کریم ہے کہ ”اللہ نے انسان کو نطفے سے پیدا کیا، پھر وہ صریح جھگڑالو بن بیٹھا۔ (سورۃ النحل:)“ یہ بظاہر تضاد نہیں بلکہ حقیقت کا تکمیلی پہلو ہے، کہ انسان عظیم ہے، اگر وہ اپنی کمزوریوں کو پہچان کر ان پر قابو پا لے۔ یہی اصل امتحان ہے، اور یہی انسان کی عظمت کا معیار۔
یہ سوال ہے تو تلخ مگر ضروری ہے: کیا ہم پاکستانی واقعی اچھے مسلمان ہیں، یا صرف نام کے؟ بدقسمتی سے یہ المیہ ہے کہ ہیں تو ہم مسلمان، مگر اخلاق سے خالی ہوتے جارہے ہیں۔
بدقسمتی سے آج کے پاکستانی معاشرے میں، خاص طور پر سوشل میڈیا پر، ہمیں ایک روحانی و اخلاقی انحطاط نظر آتا ہے۔ عدم برداشت، فرقہ واریت، نفرت، تکفیر، اور گالم گلوچ، یہ سب کچھ نہ صرف عام ہو چکا ہیں بلکہ بعض حلقوں میں اس عمل کو دینی غیرت کا اظہار سمجھا جاتا ہے۔
افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ اگر کوئی مخالف مسلک یا رائے رکھنے والا شخص سامنے آ جائے، تو بسا اوقات اسے ''کافر''، ''گمراہ''، یا ''گستاخ'' قرار دینے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا، اور پھر اس کے لیے ایسی زبان استعمال کی جاتی ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ حیرت کی بات یہ نہیں کہ یہ زبان استعمال کی جاتی ہے، بلکہ افسوس یہ ہے کہ لیڈرشپ اور جماعت کے کارکنان اس عمل کا دفاع کرتے بلکہ اسے غیرت مندی قرار دیتے ہیں۔
ماضی میں ہم سب کو کئی شخصیات اور کئی جماعتوں کی جانب سے شدت پسندی و گالم گلوچ ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے رہے ہیں۔ آپ سوشل میڈیا پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ مسلکی اختلاف کی بناء پر مخالفین کے لئے کافر، منافق، زندیق، ملحد، مرتد، کتا، نطفہ حرام، دلہ، سور کی اولاد، ننگی گالیوں سے لبریز ایسے ایسے القابات استعمال کئے جاتے رہیں ہیں کہ قلم شرما جائے۔ افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ سٹیج اور منبروں سے مخالفین کے لئے ایسے الفاظ اور القابات کے استعمال کے وقت سامعین یاجماعت کے اراکین مقرر یا اپنی لیڈرشپ کو ایسے الفاظ کے استعمال سے روکنے کی بجائے مقرر کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے وہی الفاظ و القابات دہراتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا کے دور میں ایسے الفاظ اور القابات سے لبریز ویڈیو اور آڈیو کلپس کو ہزاروں، لاکھوں کی تعداد میں شیئر کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ اور پھر ان کے پیروکار تبصروں میں ان الفاظ کی مدح سرائی کرتے نظر آتے ہیں۔
میری نظر میں اسکی سب بڑی وجہ شاید یہی ہو کہ ہم صرف اپنے آپکو اور اپنی جماعت کو ہی صراط مستقیم پر چلنے والے سمجھتے ہیں جبکہ دوسروں کے متعلق تجسس کا شکار رہتے ہیں۔ حالانکہ سورۃ الحجرات میں ایمان والوں کو تجسس کرنے سے منع کرنے کی واضح ہدایت موجود ہے۔
کیا ہم اس بات کو بھول چکے ہیں کہ قرآن فرماتا ہے: ”اور (اے مسلمانو!) تم ان (جھوٹے معبودوں) کو گالی مت دو جنہیں یہ (مشرک لوگ) اللہ کے سوا پوجتے ہیں پھر وہ لوگ (بھی جواباً) جہالت کے باعث ظلم کرتے ہوئے اللہ کی شان میں دشنام طرازی کرنے لگیں گے (سورۃ الانعام)۔“ جب غیر مسلموں کے جھوٹے معبودوں کو برا کہنے سے روکا گیا، تو ہم اپنے ہی جیسے کلمہ گو مسلمانوں کو گالیاں دینا کس دین کی تعلیم سمجھ بیٹھے ہیں؟
خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''مومن گالی دینے والا، لعنت کرنے والا، فحش گو اور بدزبان نہیں ہو سکتا''۔ ہمارے ہاں دین کو محض نماز، روزہ، حج اور ظاہری لباس و عبادات تک محدود کر دیا گیا ہے، جبکہ قرآن ہمیں بار بار اخلاق، عدل، صبر، برداشت، اور زبان کی پاکیزگی کی تعلیم دیتا ہے۔
اگر کسی کے نزدیک دینداری کا معیار صرف ''عبادات'' اور ''نعرے'' ہیں، مگر اس کی زبان زہر اگلتی ہے، تو وہ دین کا محض ظاہری خول تھامے ہوئے ہے اصل روح نہیں۔
ایک سوال، جو ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے: کیا ہمارا دین ہمارے اخلاق اور کردار سے جھلکتا ہے؟ یا صرف ہماری پہچان، مسلکی شناخت، اور ظاہری وضع قطع تک محدود ہو کر رہ گئی ہے؟
افسوس، کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اخلاقیات کا جنازہ نکل رہا ہے بس نماز جنازہ ادا کرنا باقی رہ گیا ہے۔
میری نظر میں ہمارے لئے یہ ایک قومی، دینی اور انسانی فریضہ ہونا چاہیے کہ ہمیں بحیثیت قوم اب یہ طے کرنا ہے کہ: ہم دین کو شخصیتوں کے تابع کریں گے یا دینی اصولوں کی روشنی میں شخصیات کو پرکھیں گے؟ ہم اختلاف کو برداشت کریں گے یا اسے دشمنی میں بدل دیں گے؟ ہم سوشل میڈیا کو نفرت کا میدان بنائیں گے یا اصلاح کا ذریعہ؟
اے اللہ! ہمیں دین کی اصل روح سمجھنے کی توفیق دے۔ ہمیں صرف ''اشرف المخلوقات'' کہلانے کا نہیں، بلکہ اس کا حق ادا کرنے والا انسان بنا۔ ہماری زبانوں کو گندگی سے، اور دلوں کو تعصب سے پاک کر دے۔ ہمیں اصولوں سے وفادار بنا، نہ کہ شخصیتوں سے اندھے عقیدت مند۔ آمین، ثم آمین
واپس کریں