دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ماہ ربیع الاول اور سیلاب زدگان کی امداد
محمد ریاض ایڈووکیٹ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
ماہِ ربیع الاول، وہ مقدس مہینہ ہے جس میں اللہ رب العزت نے پوری انسانیت پر اپنا سب سے بڑا انعام فرمایا۔ نبی آخر الزمان، رحمت للعالمین، خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت اسی مہینے میں ہوئی۔ یہ مہینہ ہر مسلمان کے لیے بے پناہ خوشی، عقیدت، محبت اور روحانی سرشاری کا مہینہ ہوتا ہے۔ دنیا کے کونے کونے میں بسنے والے عاشقانِ رسول ﷺ اس مہینے میں اپنی محبتوں کا اظہار مختلف انداز میں کرتے ہیں۔ کہیں نعتیہ محافل کا انعقاد ہوتا ہے، کہیں درود و سلام کی محافل سجتی ہیں، تو کہیں گھروں، گلیوں اور بازاروں کو چراغاں کر کے عقیدت کا اظہار کیا جاتا ہے۔
لیکن اس سال ربیع الاول کی آمد ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ہمارا ملک ایک انتہائی تکلیف دہ اور آزمائشی مرحلے سے گزر رہا ہے۔ حالیہ بارشوں اور سیلابی صورتحال نے پاکستان کے کئی علاقے برباد کر دیے ہیں۔ سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، خدشہ ہے کہ خدانخواستہ ہزاروں خاندان بے گھر ہوجائیں گے، لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہونے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے، اسی طرح لاتعداد لوگوں کا بنیادی سہولیات سے محروم ہونے کا امکان ہے۔ خدشہ ہے کہ ہزاروں افراد کھلے آسمان تلے، کسی کونے میں پناہ کے منتظر ہونگے۔ ایسے حالات میں ایک سوال ہر صاحبِ دل مسلمان کے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے، کیا ہم اس ربیع الاول کو صرف روایتی انداز میں منائیں؟ یا پھر اس خوشی کے موقع کو حقیقی اسلامی جذبے کے تحت دکھی انسانیت کے کام لائیں؟
یقیناً نبی کریم ﷺ کی ولادت ہم سب کے لیے باعثِ سعادت ہے۔ لیکن اس سعادت کا اصل تقاضا یہ ہے کہ ہم اُن کی سیرت سے رہنمائی لیں۔ رسول اکرم ﷺ نے زندگی بھر اپنے قول و عمل سے ہمیں یہ سبق دیا کہ مخلوقِ خدا کی خدمت ہی اصل عبادت ہے۔ چاہے وہ غریب کی مدد ہو، یتیم کی کفالت ہو، یا مصیبت زدہ کے آنسو پونچھنا ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "جو شخص کسی مسلمان کی دنیاوی مشکل کو دور کرے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی مشکل دور کرے گا۔"
یہی وہ وقت ہے کہ ہم اپنی محبتِ رسول ﷺ کو صرف زبانی دعوؤں اور روایتی رسومات تک محدود نہ رکھیں بلکہ عملی طور پر ثابت کریں کہ ہمیں اپنے پیارے نبی ﷺ کی سیرت سے سچی محبت ہے۔ اگر ہم اس ربیع الاول میں دیگیں پکانے، برقی قمقمے لگانے، مہنگی محافل منعقد کرنے اور دیگر ظاہری اظہار پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کے بجائے وہی رقم سیلاب زدگان کی امداد کے لیے وقف کریں تو کیا یہ عمل نبی اکرم ﷺ کو خوش نہیں کرے گا؟
ذرا سوچیے، اگر حضور اکرم ﷺ آج ظاہری طور پر ہمارے درمیان ہوتے، تو کیا وہ چراغاں سمیت میلاد کے نام پر مہنگی ترین محافل کو سراہتے یا سیلاب میں گھرے بے سہارا انسانوں کی خبرگیری کو ترجیح دیتے؟ کیا وہ پرچموں اور بینروں کو پسند فرماتے یا کسی یتیم بچے کو کپڑا پہنانے اور کھانا کھلانے کو؟
یہ وقت صرف نعتیں پڑھنے کا نہیں، بلکہ نبی کریم ﷺ کے اُس اسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کا ہے، جس میں دوسروں کے دکھ درد میں شریک ہونا اولین درس ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ربیع الاول کی خوشیوں کو غم زدہ دلوں کے ساتھ بانٹیں، اور اپنی تقریبات کو خدمتِ خلق کا ذریعہ بنائیں۔
اس ربیع الاول، آئیے کچھ نیا کریں:
اگر آپ میلاد کی محفل منعقد کر رہے ہیں، (کوشش کریں کہ مہنگے ترین نعت خواں حضرات کو محافل میں مدعو نہ کریں) تو اس کے ساتھ امدادی فنڈ بھی قائم کریں، تاکہ حاضرین کو موقع ملے کہ وہ کچھ عطیہ کریں۔
نعت خوانی کے بعد کھانے کی بجائے متاثرہ علاقوں کے لیے خشک راشن اکٹھا کریں۔
گھروں، محلوں میں چراغاں کی بجائے، وہی پیسہ خیمے، ادویات یا گرم کپڑوں کی خریداری پر خرچ کریں۔
بچوں کو خوشیاں دینے کے ساتھ ساتھ سیلاب زدہ بچوں کے لیے کھلونے، کتابیں یا جوتے اکٹھے کریں۔
سوشل میڈیا پر شعور اجاگر کریں کہ “نبی ﷺ کی محبت، دکھی انسانیت کی خدمت میں ہے”
یاد رکھیں، جو دل ربیع الاول میں دوسروں کی تکلیف پر تڑپتا ہے، وہی دل درحقیقت محبتِ رسول ﷺ سے لبریز ہوتا ہے۔ ہمارے نبی ﷺ تو وہ ہستی ہیں جو دشمن کے لیے بھی بددعا نہ کرتے، جو طائف کے بچوں کی سنگ باری پر بھی اُن کے لیے ہدایت کی دعا کرتے، جو کسی بھوکے کو دیکھ کر خود کا کھانا چھوڑ دیتے، جو یتیم کا سہارا بنتے اور بیواؤں کے مددگار ہوتے۔
اگر ہم صرف نعتوں میں نبی کریم ﷺ سے محبت کا اعلان کریں لیکن اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کا جذبہ نہ ہو، تو یہ کیسی محبت ہے؟ آج جو ہمارے مسلمان بہن بھائی آسمان تلے بے یار و مددگار بیٹھے ہیں یا خدانخواستہ بیٹھیں گے، کیا ہم اُن سے نظریں چرا کر نبی ﷺ کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں؟
اس ربیع الاول کو صرف روایتی میلاد نہ بنائیں، بلکہ اسے "رحمت للعالمین ﷺ کے امتی ہونے کا عملی ثبوت" بنائیں۔ آیئے، چراغاں دلوں میں جلائیں، اور اُن ہاتھوں کو تھامیں جو پکار رہے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کی سچی خوشنودی اسی میں ہے کہ اُن کی امت کے دکھی افراد کو سہارا دیا جائے۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں سمجھ، ہمت اور توفیق عطا فرمائے کہ ہم صرف نبی ﷺ کے نام کے عاشق نہ رہیں، بلکہ اُن کے طریقے کے سچے پیروکار بھی بن سکیں۔ آمین ثم آمین
واپس کریں