محمد ریاض ایڈووکیٹ
چالیس لاکھ سے زائد آبادی کے ضلع شیخوپورہ کو پاکستان کے بیس بڑے اضلاع میں شمار کیا جاتا ہے۔ ضلع شیخوپوہ، صفدرآباد، مریدکے، شرقپورشریف، فیروزوالا اور شیخوپورہ پانچ تحصیلوں پر مشتمل ہے۔ بڑھتی آبادی اور وسائل کی کمی نے جہاں ریاست پاکستان کے دیگر اضلاع میں مسائل کو جنم دیا وہیں پر شیخوپورہ بھی شدید متاثر ہواہے۔ آج کی تحریر میں شیخوپورہ کے بڑے مسائل کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
سرکاری تعلیمی اداروں کی کمی:
شہر شیخوپورہ میں سرکاری سطح پر کوئی یونیورسٹی موجود نہیں ہے۔ آج بھی سینکڑوں طلباء و طالبات اعلی تعلیم کے حصول کے لئے روزانہ لاہور یاترا کرتے ہیں یا لاہور ہاسٹلز میں قیام پذیر ہوتے ہیں۔ برطانوی راج سے آزادی حاصل کئے آٹھ دہائیاں ہونے کے قریب ہیں مگر تاریخی شہر شیخوپورہ یونیورسٹی سے محروم ہے۔ ماضی قریب میں کچھ سیاسی حلقوں کی جانب سے یونیورسٹی قیام کے لئے تگ و دو کی گئی مگر بات صرف چند اعلانات اور سرکاری دستاویزات سے آگے نہ بڑھ سکی۔ آبادی کے تناسب سے شیخوپورہ میں سرکاری سکولوں اور کالجوں کی تعداد میں اضافہ بھی وقت کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ ہر شخص اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکول میں تعلیم دلوانے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
ماحولیاتی آلودگی:
شیخوپورہ کا شمار پاکستان کے بڑے صنعتی اضلاع میں بھی ہوتا ہے۔ صنعتی اداروں کی جانب سے صنعتی فضلہ بغیر ٹریٹمنٹ کئے دریاؤں اور نہروں میں بہایا جارہا ہے۔ جس کے نتیجے میں زیرزمین پانی میں آرسینک و دیگر زہریلی دھاتیں شامل ہورہی ہیں۔ اسی طرح فیکٹریوں اور اینٹوں کے بھٹوں سے بغیر ٹریٹمنٹ کئے چمنیوں سے نکلنے والا زہریلہ دھوں فضا کو آلودہ کئے جارہا ہے۔ جسکی بدولت انسانی اور حیوانی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ فضا میں پھینکے جانے والے اس زہر کی بدولت سانس کی بیماریوں میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے اور سردیوں میں یہی فضائی آلودگی سموگ کی شکل میں تباہ کاریاں لیکر آتی ہے۔ سرکاری محکموں کی موجودگی میں ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ محکموں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
زرعی رقبے میں مسلسل کمی:
ضلع شیخوپورہ جو صنعت کیساتھ ساتھ زرعی ضلع بھی کہلاتا ہے۔ جہاں ہر سُو ہریالی ہی ہریالی ہوا کرتی تھی۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور ریل اسٹیٹ سرمایہ کاروں کی بدولت روزبروز زرعی رقبے میں مسلسل کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ آئے روز نت نئی ہاؤسنگ سوسائٹیز منظر عام آرہی ہیں۔ آنے والے دس یا بیس سالوں تک لاہور کی طرز پر شیخوپورہ شہر بھی کنکریٹ کے شہر میں تبدیل ہوتا دیکھائی دے رہا ہے۔
صاف پانی اور سیوریج کے مسائل:
ایک طرف بڑھتی آبادی کی بدولت نئے علاقے، محلے اور ہاؤسنگ اسکیم بن رہی ہیں مگر دوسری جانب سرکاری سطح پر صاف پانی اور سیوریج کے مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ صاف پانی کی بات کی جائے تو صنعتی استعمال کے لئے زیر زمین پانی کا بے دریغ استعمال اور صنعتی فضلے کی بدولت زیر زمین صاف پانی کا لیول خطرناک حد تک نیچے چلا گیا ہے۔ کسی دور میں شیخوپورہ میں پچاس فٹ گہراہی سے نلکے کا پانی دستیاب ہوجایا کرتا تھا مگر آج صاف پانی کے حصول کے لئے کم ازکم تین یا چار سو فٹ بور کرنا پرتا ہے۔ یہی حال سیوریج سسٹم کا ہے، دہائیوں پہلے شیخوپورہ خصوصا شہر شیخوپورہ میں سیوریج سسٹم متعارف کروایا گیا۔ مگر افسوس دہائیاں گزرنے کے بعد آبادی کی رفتار کے تناسب سے سیوریج سسٹم میں کوئی بہتری نہیں لائی گئی۔ گذشتہ ماہ ہونے والی بارشوں کے بعد شیخوپورہ شہر کی گلیاں اور سڑکیں گندے نالے اور گندے تالاب کی شکل اختیار کرچکی ہیں۔ سیوریج سسٹم میں اپ گریڈیشن کی کمی اپنی جگہ مگر موجودہ سیوریج سسٹم کی دیکھ بھال میں کوتائی بھی میونسپل کمیٹیوں اور ضلعی انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان چھوڑ رہی ہے۔ عرصہ دراز سے نالوں اور صفائی ستھرائی کا کام دیکھنے کو نہیں مل رہا۔ وزیراعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ کی ستھرا پنجاب اسکیم صرف سڑکوں پر جھاڑوں مارنے اور کچڑا اُٹھانے تک محدود نظر آتی ہے۔ اگر نالوں کی باقاعدگی سے صفائی ستھرائی کی جائے اور بارشوں کے دوران بروقت ڈسپوزل ٹیوب ویلز کو چلایا جائے تو شیخوپورہ کی گلیاں، محلے اور سڑکے گندے تالابوں کی شکل اختیار نہ کریں۔
صحت سہولیات:
شیخوپورہ میں لاہور کے جنرل ہسپتال، سروسز ہسپتال، ایسی طرز کے شفاخانوں کی اشد ضرورت ہے۔ آج بھی ہنگامی اور بیشتر سنگین نوعیت کے کیس لاہور ریفر کردیئے جاتے ہیں اور لواحقین کو کہہ دیا جاتا ہے کہ ''اینے نئیں جے بچنا۔۔۔اینوں لہور لے جاؤ''۔
سرکاری محکموں میں کرپشن:
آئے روز سرکاری اہلکاروں کی جانب سے بدعنوانی کی خبریں میڈیا کی زینت بنتی ہیں۔ سائلین کو دادرسی حصول کے لئے سرکاری محکموں میں بیٹھی چند کالی بھیڑوں کی جیبوں کو گرم کرنا پڑتا ہے۔
امن عامہ کی ابتر صورتحال:
بلا شک و شبہ شیخوپورہ کا شمار ہمیشہ ہی سے جرائم کے گڑھ کے طور پر کیا جاتا ہے۔ مگر گذشتہ کچھ عرصہ سے کراچی طرز پر راہ چلتے افراد اور دوکانوں پررہزنی وڈکیتی کے واقعات نے شہریوں میں خوف و ہراس پیدا کردیا ہے۔ تاہم سی سی ڈی کی کاروائیوں سے عوام الناس نے سکھ کا سانس لیا ہے۔
سیاسی و با اختیار قیادت کا فقدان:
سال 2024عام انتخابات کے بعد شہر شیخوپورہ بظاہر لاوارث ہوچکا ہے۔ شیخوپورہ سے جیتنے والے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کا تعلق اپوزیشن جماعت سے ہے یعنی انکے پاس شیخوپورہ کے لئے نئے منصوبوں کی منظوری و اخراجات کے اختیارات ہی نہیں ہیں۔ دوسری جانب حکومتی جماعت کی ضلعی و مقامی قیادت باہمی چپقلش کا شکار ہے۔ بظاہر شیخوپورہ میں سیاسی و بااختیار قیادت کا شدید بحران جاری و ساری ہے۔
واپس کریں