محمد ریاض ایڈووکیٹ
مظفرگڑھ کی ایک خبر نے ہر حساس دل رکھنے والے شخص کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ایک دس سالہ معصوم بچی، جو بھیک مانگنے کے لیے ایک گھر میں داخل ہوئی، وہاں موجود تین درندہ صفت افراد کے ہتھے چڑھ گئی۔ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں اور نہ ہی آخری ہے۔ اپریل 2023میں بھی مظفرگڑھ میں پانچ سالہ بچی سے زیادتی کا واقعہ رونما ہوا تھا۔ قصور میں حالیہ دنوں ایک ساٹھ سالہ دکاندار آٹھ سالہ بچی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنا رہا تھا کہ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے دل دہلا دینے والے واقعات آئے دن رپورٹ ہوتے رہتے ہیں، مگر ہمارے معاشرے میں یہ مسئلہ خاص طور پر سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔ پاکستان میں ہر سال ہزاروں بچے اور بچیاں جنسی زیادتی کا شکار بنتے ہیں۔ زیادتی کے بعد بچہ اور اس کا خاندان پوری زندگی معاشرے میں نظریں جھکائے جیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم کس نہج پر پہنچ چکے ہیں جہاں معصوم بچے بھی محفوظ نہیں رہے؟ مقدمات بھی درج ہوتے ہیں، لیکن معاشرے میں درندگی اور حیوانیت ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ یہ محض چند مثالیں ہیں، ورنہ سکول، مدارس، کالجز ِ، یونیورسٹیاں، دفاتر ودیگر کام کاج کی جگہیں سب غیر محفوظ ہو چکی ہیں۔
پاکستانی قوانین کے تحت فطری یا غیر فطری جنسی زیادتی پر پانچ سال سے لے کر سزائے موت تک کی سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ بظاہر قانون سخت دکھائی دیتا ہے، مگر افسوس کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ ہزاروں واقعات رپورٹ ہونے کے باوجود مجرم یا تو باعزت بری ہو جاتے ہیں یا معمولی سزاؤں پر بچ نکلتے ہیں۔ ایک قانون کے طالب علم کی حیثیت سے مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ ہمارا نظامِ انصاف مظلوم کو بروقت اور مؤثر انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ اگر کسی مقدمے میں سزا بھی ہو جائے تو برسوں، بلکہ دہائیاں لگ جاتی ہیں۔ متاثرہ خاندان انصاف کے انتظار میں جیتے جیتے مر جاتے ہیں اور مجرم آزاد گھومتے رہتے ہیں۔ سی سی ڈی اور دیگر ادارے اپنی بساط کے مطابق کوشش کرتے ہیں، مگر جب تک عدالتوں میں فوری اور یقینی سزائیں نہیں دی جاتیں، اس حیوانی و شیطانی عمل کا خاتمہ ممکن نہیں۔
اس مسئلے کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ یہ مکروہ فعل صرف جاہل یا ان پڑھ افراد تک محدود نہیں رہا۔ پردہ دار خواتین اور کم سن بچوں اور بچیوں کو چھیڑنے اور ان پر دست درازی کرنے والوں میں حافظِ قرآن بھی نکلتے ہیں، ایم اے پاس پڑھے لکھے افراد بھی، بے روزگار بھی نکلتے ہیں اور اعلی سرکاری عہدوں پر براجمان بھی، شادی شدہ لوگ بھی اور وہ مرد بھی جو خود بچوں اور بچیوں کے باپ ہیں۔ یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ محض تعلیم یا مذہبی شناخت کسی انسان کو کردار کی ضمانت نہیں دے سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں اکثر واعظین عورتوں کے پردے پر طویل تقریریں کرتے ہیں اور یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر عورت پردہ نہ کرے تو مرد شیطان کے بہکاوے میں آ جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ وہ مرد جو حافظ قرآن ہے، شادی شدہ ہے یا صاحبِ اولاد ہے، جب کسی معصوم بچی یا بچے کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتا ہے تو کیا اس کے سامنے پردے کی بحث کوئی معنی رکھتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ نہ قرآن کی تعلیمات سے متاثر ہوتے ہیں اور نہ ہی معاشرتی روایات سے۔ یہ انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں بلکہ جانوروں سے بدتر ہیں۔ عورت کے پردے پر طویل وعظ و نصیحت کے ساتھ ساتھ ہمیں مردوں کو غیرت، حیا اور کردار سکھانے پر توجہ دینی چاہیے۔ معاشرے کی اصلاح اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مردوں کو یہ احساس نہ ہو کہ ہر عورت، ہر بچی ان کی اپنی عزت ہے۔ یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ مسئلہ صرف متاثرہ خاندان کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کی اجتماعی شرمندگی ہے۔ جو مجرم ایک بچی یا بچے کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتا ہے، دراصل وہ پورے معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا ہوتا ہے۔ اگر ہم سب اس مسئلے کو اپنی ذاتی ذمہ داری سمجھ لیں تو حالات بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔
زیادتی کے مقدمات کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں جو تین ماہ کے اندر فیصلہ دینے کی پابند ہوں۔ تفتیشی افسران کو بچوں کے خلاف جرائم کے حوالے سے خصوصی تربیت دی جائے تاکہ مقدمات میں کمزوریاں نہ رہیں۔ حکومت سول سوسائٹی، خصوصا سیاسی و مذہبی اکابرین کو مردوں کی اخلاقی تربیت اور خواتین و بچوں کے احترام کے لیے مہمات چلانی چاہئیں۔ سکول اور مدارس میں بچوں کو یہ شعور دیا جائے کہ ان کو اپنی حفاظت کیسے کرنی ہے اور کسی زیادتی کی صورت میں خاموش نہیں رہنا۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کو محض خبر دینے کے بجائے آگاہی اور شعور اجاگر کرنے پر زیادہ زور دینا چاہیے۔
کم سن بچوں کے ساتھ زیادتی پاکستان کا ایک ایسا المیہ ہے جس نے ہمارے معاشرے کے اخلاقی دیوالیہ پن کو عیاں کر دیا ہے۔ عورتوں کے پردے لازم، مگر اصل حل مردوں کی بے لگام خواہشات اور بے غیرتیوں پر قابو پانے میں ہے۔جب تک مردوں کی تربیت، قوانین پر مؤثر عملدرآمد اور فوری انصاف فراہم نہیں کیا جاتا، تب تک حیوانیت و شیطانیت کا سلسلہ کبھی نہیں رکے گا۔
واپس کریں