دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
وکلاء انتخابات، بے ضابطگیاں اور جگ ہنسائی
محمد ریاض ایڈووکیٹ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
وکلاء برادری کی تنظیموں یعنی بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز کو ریگولیٹ کرنے کے لئے لیگل پریکٹیشنرز اور بار کونسلز ایکٹ، 1973 نافذ العمل ہے۔ اور اس قانون کے سیکشن 55 کے ذریعے عطا کردہ اختیارات اور اس سلسلے میں دیگر قابل عمل دفعات کو استعمال کرتے ہوئے، پاکستان بار کونسل نے پاکستان لیگل پریکٹیشنرز اور بار کونسلز رولز،1976 ترتیب دیئے ہیں۔ ان مذکورہ قوانین کے تابع ملک بھر کی بار ایسوسی ایشنز میں سالانہ انتخابات منعقد کروائے جاتے ہیں۔جبکہ صوبائی بار کونسلوں میں پانچ سال کے بعد ممبران کو منتخب کیا جاتا ہے۔ ان انتخابات کے ضابطہ اخلاق کی بابت لیگل پریکٹیشنرز اوربار کونسلز رولز، 1976کے سیکشن 175-ایچ میں درج ہے کہ:
(الف) انتخابات لڑنے والا امیدوار یا اس کا حامی اشتہارات، بینرز، پلے کارڈز، اسٹیکرز اور پوسٹرز کے ذریعے ووٹرز کو متوجہ نہیں کرے گا۔
(ب) الیکشن لڑنے والے امیدوار یا اس کے حامی کی طرف سے ووٹروں کو بلاواسطہ یا بلاواسطہ کھانا/ لنچ/ ڈنر نہیں دیا جائے گا۔
(ج) اسکے ساتھ ساتھ یہ پیشگی شرط ہوگی کہ بار ایسوسی ایشن کے لیے انتخاب لڑنے والا امیدوار خالصتاً ایک پیشہ ور پریکٹس کرنے والا وکیل ہو اور متعلقہ بار ایسوسی ایشن سے منسلک مدت تین سال سے کم نہ ہو۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ بار انتخابات میں رولز کے تابع ضابطہ اخلاق کی پیروی کی جاتی ہے یا نہیں؟ انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ آئین و قانون کی پاسداری کے ہر اول دستہ یعنی وکلاء برادری کے امیدوران کی جانب سے بار ایسوسی ایشنز کے انتخابات کے دوران ضابطہ اخلاق و پابندیوں کی سرعام دھجیاں اُڑائی جاتی ہیں۔انتخابات سے چھ یا سات ماہ پہلے ہی انتخابی مہم شروع کردی جاتی ہے۔امیدوران کی جانب سے کچہری احاطے کے علاوہ شہر کے چوک چوراہوں میں لاکھوں روپے خرچ کرکے قدآور بل بورڑز پر اشتہار بازی کا مقابلہ، ووٹروں کو متوجہ کرنے کے لئے مینگو پارٹی، فش پارٹی کا اہتمام تو کہیں مہنگے اور پرتعاش ظہرانوں و اعشائیوں کے انتظامات کئے جاتے ہیں۔
بار انتخابات میں سیاسی جماعتوں کی شمولیت نے وکلاء برادری کے انتخابات کو سیاسی انتخابی دنگل بنا ڈالا ہے۔مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف و دیگر بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے باقاعدہ نوٹیفکیشن کے ذریعہ بار امیدواران کو نامزد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے سیاسی پلیٹ فورمز پر تشہیر کی جاتی ہے۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بار انتخابات وکلاء کی بجائے ان سیاسی جماعتوں کے درمیان ہورہے ہیں۔ اور نامزد امیدوار کی جیت پر سیاسی جماعتیں جشن مناتی ہیں۔گزشتہ کچھ عرصہ سے بار انتخابات کو سیاسی جماعتوں نے یرغمال بنا لیا ہے۔
انتخابی مہم پر کس قدربھاری بھر کم اخراجات ہوتے ہیں۔ یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ بات ہزاروں، لاکھوں کی بجائے کروڑوں روپے تک پہنچ چکی ہے۔مشاہدے میں آیا ہے کہ چند بار ممبران اپنی سالانہ فیس خود جمع کرواتے ہیں اور بقایا واجب الادا فیس تمام امیدوران میں تناسب کے حساب سے ذمہ لگ جاتی ہے۔ یقینا یہ فیس بھی لاکھوں روپے میں ہوتی ہے جو امیدواران ادا کررہے ہوتے ہیں۔ آئے روز بڑے بڑے شادی ہالوں،مہنگے ترین ہوٹلوں میں پرتکلف ناشتوں، ظہرانوں، عشائیوں، آم پارٹیوں، فش پارٹیوں، ڈرائی فروٹ پارٹیوں پر اٹھنے والے اخراجات لاکھوں روپے تک پہنچ جاتے ہیں۔ جس طرح عام انتخابات میں سیاسی جماعتیں انتخابی مہم پر نوٹوں کی بوریوں کے منہ کھول لیتی ہیں۔ بار انتخابات میں بھی ایسا ہی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ موجودہ حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اک متوسط یا کم آمدنی رکھنے والا وکیل کسی صورت بار انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا، کیونکہ اسکی جیب انتخابی اخراجات اُٹھانے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
عمومی طور پر بار انتخابات میں چیمبریاسینئر وکیل کی جانب سے کسی امیدوار کی حمایت کے اعلان کا مطلب سینئرجونئیر تمام وکلاء کی جانب سے امیدوار کی حمایت کرنا اور ووٹ کاسٹ کرنا ہے۔چیمبر یا سینئر وکلاء کی عزت و احترام برحق ہے۔ لیکن، کیا جونیئر وکیل اورچیمبر ایسوسی ایٹس کی ذاتی پسند،ناپسند کوئی اہمیت نہیں رکھتی؟ ہم ایک طرف عام انتخابات میں وڈیروں، سرداروں، چوہدریوں کی جبری سیاست کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں مگر دوسری طرف خود بار انتخابی سیاست میں جونئیر وکلاء کی پسند،ناپسنداورآزادی حق رائے دہی پر قدغن لگا رہے ہوتے ہیں۔ کیا ایسا ہونا چاہیے؟
مشاہدے میں یہ حیران کن بات بھی آتی ہے کہ بار کے منتخب عہدیدران اور الیکشن بورڈ کے ممبران بجائے ان بے ضابطگیوں کو قابل گرفت کریں وہ خود انتخابی امیدوران کی مہم میں پیش پیش ہوکر ووٹ اور سپورٹ مانگتے دیکھائی دیتے ہیں۔
الیکشن ڈے اور رزلٹ کے اعلان کے موقع پر سرعام اسلحہ کی نمائش اور ہوائی فائرنگ اور مار کٹائی کے واقعات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے۔آج کے سوشل میڈیا کے دور میں یہ تمام بے ضابطگیاں وکلاء برادری کی جگ ہنسائی کا باعث بن رہی ہیں۔ اور ہر فورم پر وکلاء برادری پر کھل کر تنقید ہورہی ہوتی ہے۔انتخابی ضابطہ اخلاق کی سرعام دھجیا ں اُڑائی جاتی ہیں مگر کسی امیدوار کی نہ تو گرفت ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی تادیبی کاروائی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بار انتخابات لڑنے والے امیدوران کی جانب سے قوانین و رولز کی من و عن پیروی کی جائے یا پھر مذکورہ قوانین میں ان بے ضابطگیوں کو ہی قوانین کا حصہ بنا دیا جائے، تاکہ کسی فرد کو وکلاء برادری پر تنقید کا موقع میسر نہ آسکے۔
واپس کریں