محمد ریاض ایڈووکیٹ
آئین پاکستان میں ممکنہ 26ویں آئینی ترمیم کے بہت چرچے ہیں۔ کہیں اعلی عدلیہ کے ججز کی ریٹائرمنٹ عمر کے تعین کا چرچہ ہے توکہیں آئینی عدالت کے قیام پر قیاس آرائیاں۔ آئینی عدالت کے قیام کی شدید مخالفت کی جارہی ہے تو کہیں اسکے حق میں توجیہات پیش کی جارہی ہیں۔ مجوزہ آئینی ترمیم کے برخلاف ہونے والی تنقید بھی بیجا نہیں۔ جیسے جیسے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ قریب آرہی ہے ویسے ہی موجودہ حکومت کی عدالتی اصلاحات کے لئے پُھرتیوں نے تمام معاملات کو مشکوک بنا دیا ہے۔ بہرحال آئین و قانون اور موجود سیاسی، سماجی اور عدالتی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھنا ہوگا کہ آیا:
آئینی عدالت کا قیام سیاسی چال ہے؟ یا پھر
وقت کی اشد ضرورت؟
پہلے سوال کے جواب کی کھوج مجھے میثاق جمہوریت کی دستاویزات تک لے پہنچی۔ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے قائدین میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے دہائیوں کے سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر 14مئی 2006چارٹرآف ڈیموکریسی یعنی میثاقِ جمہوریت پر دستخط کئے تھے اسکے سیکشن 4میں درج تھا کہ ''آئینی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک وفاقی آئینی عدالت قائم کی جائے گی، جس میں ہر وفاقی اکائی کو مساوی نمائندگی دی جائے گی۔ عدالت کے ممبران جج ہوں گے یا سپریم کورٹ کے جج بننے کے اہل۔ اور ان ججز کی تعیناتی چھ سال کی مدت کے لیے ہوگی۔ ججوں کی تقرری اسی طریقے سے کی جائے گی جس طرح اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس دیوانی اور فوجداری مقدمات کی باقاعدہ سماعت کریں گی۔''
پہلے سوال کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بادی النظر دونوں جماعتوں کی جانب سے آئینی عدالت قیام کے لئے تگ دو کرنا سیاسی چال نہیں بلکہ یہ ایک ایسا سیاسی و سماجی معاہدہ تھا جس پر یہ جماعتیں آج سے 18سال پہلے متفق ہوئی تھیں۔ لیکن یہاں ایک سوال اور پیدا ہوتا ہے کہ میثاقِ جمہوریت کے بعد دونوں جماعتیں پانچ پانچ سال برسراقتدار رہیں مگر اس دوران ان کو آئینی عدالت بنانے کا خیال کیوں نہ آیا۔ یاد رہے اٹھاریوں آئینی ترمیم کی صورت میں دونوں جماعتوں نے میثاقِ جمہوریت کے بیشتر نکات پر عملدرآمدکرلیا تھایہی وہ وقت تھا جب طاقتور حلقوں نے پی ٹی آئی کی صورت میں متبادل تیسری سیاست قوت کے پلان کو عملی جامہ پہنانے کا تہیہ کرلیا تھا کیونکہ طاقتور حلقے یہ جانتے تھے کہ اگر میثاقِ جمہوریت پر سو فیصد عملدارآمد کرلیا گیا تو انکی طاقت پر گہری چوٹ لگے گی۔ اور پھر دونوں جماعتوں کے خلاف محلاتی سازشیں رچائی گئیں جن میں دونوں جماعتیں خود ایک دوسرے کے خلاف سازش کا ایندھن بھی بنیں۔ جس بناء پر میثاق جمہوریت کی باقی ماندہ شقوں پر عمل نہ ہو پایا۔
دوسرا سوال، کیا آئینی عدالت کی واقعی ضرورت ہے؟۔ اس سوال کے جواب کی کھوج میں ہمیں لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کی ششماہی رپورٹ کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ اس رپورٹ کے مطابق دسمبر 2023تک پاکستان کی تمام عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 22لاکھ سے زائد ہے اور خصوصا سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 56ہزار ہے اور سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 16ستمبر 2024 تک زیر التوا مقدمات کی تعداد 60ہزار سے زائد ہوچکی ہے۔ سپریم کورٹ میں اگر مزید مقدمات کی دائرگی نہ بھی کی جائے تو اک محتاط اندازے کے مطابق صرف انہی 60ہزار مقدمات کی شنوائی کے لئے کم از کم تین سے چار سال درکار ہونگے۔
عام عوام کے مقدمات سالوں تک ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں سماعت کے لئے مقرر ہی نہیں ہوپاتے مگر آئینی معاملات کی تشریح کے لئے رٹ پٹیشن نہ صرف فی الفور مقررہوجاتی ہیں بلکہ شنوائی کیلئے ججز کی فوج بھی دستیاب ہوتی ہے۔ بسااوقات آدھی رات کو عدالتیں بھی کھل جاتی ہیں اور ہفتوں بلکہ مہینوں تک ان مقدمات کی سماعتیں جاری رہتی ہیں ان سماعتوں کے دوران فوجداری اور دیوانی مقدمات پس پشت ڈال دیئے جاتے ہیں۔ یاد رہے 1997 کے ایکٹ کے مطابق سپریم کورٹ ججز کی تعداد بشمول چیف جسٹس 17 طے پائی تھی جس وقت پاکستان کی کل آبادی 14 کروڑ کے قریب تھی مگر آج 25 کروڑ آبادی کے لئے وہی 17 ججز ہیں۔ اسی طرح کی صورتحال پاکستان کی پانچوں ہائیکورٹس کی ہے۔ یاد رہے دہرا عدالتی نظام بشمول جرمنی، اٹلی، سپین، آسٹریا، جنوبی افریقہ، پولینڈ، روس، ترکیہ، کولمبیا، جنوبی کوریا، چلی اور پرتگال سمیت یورپی، لاطینی امریکہ اور افریقہ کے کئی ممالک میں رائج ہے۔ جس میں فوجداری مقدمات اور آئینی معاملات کے لئے علیحدہ علیحدہ عدالتیں قائم ہیں
آپ حکومت کی وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی مخالفت اس بناء پر ضرور کرسکتے ہیں کہ اسکی ٹائمنگ بہت غلط ہے کیونکہ اپوزیشن جماعتیں خصوصا پی ٹی آئی وفاقی آئینی عدالت کے قیام اور ممکنہ طور پر جسٹس قاضی فائز عیسی کو آئینی عدالت کی سربراہی ملنے پر شدید تحفظات کی شکار ہے مگر آپ آئینی عدالت کے قیام کی ضرورت سے انکار نہیں کرسکتے۔ انصاف کے حصول کے لئے کئی دہائیوں تک ذلیل و خوار ہونے والی عوام کی دادرسی کے لئے نہ صرف عدالتوں میں ججز کی تعداد کو بڑھانا ہوگا بلکہ آئینی عدالت کے قیام کے لئے رستے ہموار کرنا ہونگے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو حزب اختلاف کی جماعتوں خصوصا پی ٹی آئی کو اعتماد میں لینا ہوگا اور اس تاثر کو زائل کرنا ہوگا کہ حکومت وقت کی جانب سے آئینی عدالت کے قیام کا مقصد صرف جسٹس قاضی فائز عیسی کو ہر صورت عدالتی اثر ورسوخ میں رکھنا اور سپریم کورٹ کی طاقت کو کمزور کرنا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کی تمام پارلیمانی و سیاسی جماعتیں عوام الناس کے دُکھ درد کو محسوس کرتے ہوئے پارلیمینٹ میں بے لوث و شفاف انداز میں قانون سازی کرتے ہوئے وفاقی آئینی عدالت کے قیام اور اعلی عدلیہ میں ججز کی تعداد کو بڑھانے میں اپنا بھرپور حصہ ڈالیں اور متفقہ طور آئینی و قانونی ترامیم کو منظور کروائیں تاکہ دہائیوں تک عدالتوں میں دھکے کھاتی عوام کے لئے تیز رفتار حصولِ انصاف ممکن ہوسکے۔ یاد رہے آئین پاکستان کے آرٹیکل 37-Cکے تحت ریاست پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ سستے اور تیز رفتار انصاف کو یقینی بنائے گی۔
واپس کریں