محمد ریاض ایڈووکیٹ
پاکستان میں اعلی ترین عہدیدران کی مدت ملازمت میں توسیع دیرینہ مسئلہ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کو حکومت بچانے کے لئے پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں تین سال کے لئے توسیع دینا پڑی۔ پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت چلائی جانے والی کاروائی اور راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع سے انکار مسلم لیگ ن کی حکومت کے لئے مشکلات کے اسباب بنے۔ آپکو یاد ہوگا کہ راحیل شریف کے لئے"جانے کی باتیں۔ہوئیں پرانی" اور "جانے کی باتیں نہ کرو" اور"خدا کے لئے اب آجاؤ" ایسے الفاظ سے مزین بڑے بڑے پینا فلیکس بورڈ پاکستان کے بڑے شہروں میں آویزاں کردیئے گئے۔ بہرحال راحیل شریف اپنی مدت ملازمت میں توسیع حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ جس کا خمیازہ مسلم لیگ ن کو دوران حکومت اور بعد ازاں بھاری قیمت سے چکانا پڑا۔
اسکے بعد تحریک انصاف کی حکومت جس کے بانی جناب عمران احمد خان نیازی مسند اقتدار براجمان ہونے سے پہلے کسی بھی اعلی ترین عہدیدار خصوصا آرمی چیف کی مدت ملازمت میں اضافہ کے سخت ترین ناقد رہے، اور دوسری جنگ عظیم و برطانیہ کی مثالیں دیا کرتے تھے کہ حالت جنگ میں بھی فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں دی گئی مگر 19اگست 2019 کو موصوف نے علاقائی سیکورٹی حالات کے نام پر قمر جاوید باجوہ کو تین سالہ مدت ملازمت توسیع کے نوٹیفیکیشن پر دستخط کئے۔ جیسے پیپلز پارٹی افتخار چوہدری بحالی کے لئے تحریک کوسپورٹ کرنے پر آج تک پچھتاوے کا اظہار کرتی ہے اسی طرح آج کل اڈیالہ میں مقیم قیدی نمبر 804 قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن دینا سب سے بڑی غلطی قرار دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہے ناں کہ "اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت"۔ جس طرح تحریک انصاف ثاقب نثار، گلزار احمد، آصف سعید کھوسہ، عمرعطا بندیال جیسے ججز کو اپنے لئے مشکل کشاء سمجھتی رہی عین اسی طرح مسلم لیگ ن موجودہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اپنے لئے حاجت روا سمجھی بیٹھی ہے۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے ججز کی ریٹائرمنٹ عمر میں توسیع، آئینی مقدمات کے لئے علیحدہ عدالت کے قیام و ججز کی قابلیت و تعیناتی کے لئے آئینی ترمیم کے لئے کی جانے والی پُھرتیاں قابل دید ہیں۔ موجودہ پارلیمانی پارٹیوں کی عددی تعداد دیکھی جائے توحکومت وقت کے پاس آئین پاکستان میں ترمیم کے لئے دو تہائی اکثریت حاصل نہیں۔ مگر یہ پاکستان ہے یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے؛ جیسے سال 2003میں پرویز مشرف کی حامی جماعت مسلم لیگ ق اور اپوزیشن جماعتوں بشمول مولانا فضل الرحمان نے مل کر 17ویں آئینی ترمیم کو منظور کرکے پرویز مشرف کے 12اکتوبر1999سے لیکر دسمبر 2003تک کے غیر آئینی اقدمات کو تحفظ فراہم کرکے آئین کے آرٹیکل 270-AAکا حصہ بنا دیاور آمر پرویز مشرف کے لئے مزید پانچ سال کے لئے صدر بننے کی راہ ہموار کردی۔ اور اسی طرح قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹینشن کے لئے آرمی ایکٹ میں ترمیم کے وقت تمام پارلیمانی پارٹیوں نے باجماعت منظوری دلوائی تھی۔
یاد رہے آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے لئے پارلیمینٹ میں سادہ اکثریتی ووٹوں کی ضرورت تھی جو تحریک انصاف کے پاس پہلے ہی سے موجود تھی مگر پارلیمینٹ میں موجود تقریبا تمام سیاسی جماعتوں بشمول تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے بانہوں میں بانہیں ڈال کر آرمی ایکٹ میں ترمیم منظور کروائی۔ آج بھی اگر طاقتور حلقوں نے آئین پاکستان میں ترمیم کی ٹھان لی تو چشم فلک دیکھے گی کہ کیسے اراکین اسمبلی خوشی خوشی آنکھیں بند کرکے قانون سازی میں حصہ لیں گے۔ حکومتی پُھرتیاں سمجھ سے بالاتر ہیں، یہ کیسی قانون سازی ہے جسکا ڈرافٹ ممبران پارلیمنٹ نے ابھی تک نہیں دیکھا۔ بحیثیت قانون کے طالب علم میں یہ سمجھتا ہوں کہ ججزاور عدلیہ کے حوالہ سے مبینہ قانون سازی کے سب سے بڑے سٹیک ہولڈرز میں وکلاء تنظمیوں کا بھی شمار ہوتا ہے مگر پاکستان بار کونسل و صوبائی بار کونسلز کو اعتمار میں لینے کی کوشش بھی نہیں کی گئی۔ پاکستان جیسی ریاست کی بدقسمتی رہی ہے جہاں ایک طرف اعلی ترین عہدوں پر براجمان اپنی ایکسٹینشن کے لئے ہاتھ پاؤں مارتے دیکھائی دیتے ہیں تو دوسری طرف انہی اداروں کے دیگر عہدیدران ایکسٹینشن مراحل کے دوران حمایت یا مخالفت میں ہر حد عبور کردیتے ہیں۔
بالفرض آئینی ترامیم منظور بھی ہوجاتی ہیں اور موجود چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 65سال کی بجائے 68سال کی عمر یعنی مزید تین سال تک اس عہدہ پر براجمان رہتے ہیں تو کیا پاکستانی عدلیہ کے تمام مسائل حل ہوجائیں گے؟ سپریم کورٹ سمیت پاکستانی عدالتوں میں 22لاکھ سے زائد زیر التوا مقدمات ختم ہوجائیں گے؟موجودہ حکومت کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جس طرح قیدی نمبر 804نے اقتدار کو طُول دینے کے لئے طویل مدتی پلاننگ کرتے ہوئے قمر جاوید باجوہ کو ایکسٹینشن دی مگر آج وہ انہی کو اپنی حکومت کے خاتمہ کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ مسقتبل میں کہیں مسلم لیگ ن کو پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی طرح پچھتانا نہ پڑ جائے۔ لہذا سیاسی جماعتوں خصوصا پاکستان مسلم لیگ ن کو اعلی ترین عہدیدران کے کندھوں پر بھروسہ کرنے کی بجائے عوام الناس میں اپنی مقبولیت بڑھانے کے لئے سیاست کرنی چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں ایکسٹینشن کے نام پر ہونے والی سیاست و قانون سازی کی حوصلہ شکنی کی جائے اور شخصیات کی بجائے اداروں کومضبوط کیا جائے۔
جب آپ کسی ادارے کے چیف کو ایکسٹینشن دیتے ہیں توچیف کے نیچے عہدیدران کی قابلیت پر عدم اعتماد کرتے ہیں، حقیقت میں آپ ادارے کو کمزور تر کررہے ہوتے ہیں۔ بظاہر اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ عوامی مسائل اور انکا حل نہیں بلکہ ایکسٹینشن، ایکسٹینشن اور صرف ایکسٹینشن ہے۔
واپس کریں