محمد ریاض ایڈووکیٹ
آئینِ پاکستان میں ترامیم کا سلسلہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جو کبھی بند نہیں ہوا۔ ہر دورِ حکومت میں اقتدار کے ایوانوں میں آئینی تبدیلیوں کی بازگشت سنائی دیتی رہی ہے۔ کبھی طاقتور طبقے نے اپنی بالادستی کو دوام بخشنے کے لیے آئین میں رد و بدل کیا، تو کبھی عوامی نمائندوں نے اصلاحات کے نام پر وہی عمل دہرا دیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ آئینی ترامیم کا مقصد اکثر و بیشتر ریاستی ڈھانچے کی مضبوطی یا عوامی فلاح کے بجائے مخصوص طبقات کے مفادات کے تحفظ تک محدود رہا ہے۔ آج 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے پر ہونے والی سرگرمیوں کو دیکھ کر یہی احساس ایک بار پھر تازہ ہو جاتا ہے۔
یہ امر باعثِ حیرت ہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے کی منظوری کے لیے وزیراعظم پاکستان جناب شہباز شریف صاحب نے آذربائیجان میں موجود ہوتے ہوئے ویڈیو لنک کے ذریعے وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کی اور ترمیم کی منظوری دی گئی۔ گویا اتنی جلدی تھی کہ وطن واپسی کا انتظار تک گوارا نہ کیا گیا۔ اب یہ ترمیم پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں پیش کی جائے گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر اس ترمیم میں ایسا کیا ہے جس کے لیے اتنی عجلت برتی جا رہی ہے؟ کیا یہ ترمیم عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ہے یا پھر مخصوص طبقات کے مفادات کے تحفظ کے لیے تیار کی گئی ہے؟
اگر ترمیم کے مجوزہ مسودے پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں سب کچھ شامل ہے، مگر اس میں عوام الناس کے مفاد کے لیے کوئی قابلِ ذکر شق موجود نہیں۔
عوام جو اس ریاست کی بنیاد ہیں، جن کے ووٹوں سے یہ حکمران ایوانوں تک پہنچتے ہیں، ان کے لیے اس ترمیم میں کوئی ریلیف، کوئی سہولت، کوئی ضمانت نہیں رکھی گئی۔ کیا آئینی ترامیم کا مقصد صرف اہلِ اقتدار کے اختیارات کا تعین اور طاقت کی تقسیم کا کھیل رہ گیا ہے؟
پاکستان کی آئینی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں غیر منتخب قوتوں نے ہمیشہ آئین کو اپنی ضرورت کے مطابق موڑا۔ جب کبھی عوام کے منتخب نمائندوں کو اقتدار نصیب ہوا، تو توقع کی جاتی تھی کہ وہ ان غیر جمہوری ترمیمات کو ختم کر کے عوامی حقوق کو آئینی تحفظ دیں گے۔ مگر بدقسمتی سے عوامی نمائندے بھی اسی ڈگر پر چل نکلے۔ فرق صرف اتنا ہوا کہ اب آئینی ترامیم بند دروازوں کے پیچھے، ظہرانوں، عشائیوں اور ''ہائی ٹی'' کی محفلوں میں طے پاتی ہیں۔ عوامی مشاورت کا عمل نہ ہونے کے برابر ہے، اور نہ ہی مسودہ عوامی بحث کے لیے منظر عام پر لایا جاتا ہے۔ جب جماعتی قائدین آپس میں متفق ہو جاتے ہیں، تو باقی اراکینِ پارلیمنٹ کے لیے اختلاف کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ یہی معاملہ 27ویں ترمیم کے ساتھ بھی پیش آ رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آئینی ترامیم کا اصل مقصد کیا ہونا چاہیے؟ آئین کسی ریاست کا بنیادی معاہدہ ہوتا ہے جس میں ریاست اور شہریوں کے درمیان حقوق و فرائض کا توازن قائم کیا جاتا ہے۔ جب بھی اس معاہدے میں تبدیلی کی جائے تو سب سے پہلے یہ دیکھا جانا چاہیے کہ کیا اس سے عام آدمی کو کوئی فائدہ پہنچے گا؟ کیا اس سے انصاف، روزگار، تعلیم یا صحت کے مواقع بہتر ہوں گے؟ لیکن ہمارے ہاں آئینی ترامیم عوام کی زندگی بدلنے کے بجائے اشرافیہ کے مفادات کی تکمیل کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ عوامی مفاد کے لیے اگر کبھی قانون سازی کی جائے تو وہ برسوں کمیٹیوں میں زیرِ التوا رہتی ہے۔ مزدور، کسان، بے روزگار نوجوان، کم آمدنی والے طبقے،ان سب کے مسائل پر بننے والے بل یا تو دفتروں میں دبے رہ جاتے ہیں یا پھر حکومت کی ''ترجیحات'' کی نذر ہو جاتے ہیں۔ مگر جب معاملہ اقتدار کے ایوانوں کے دائرہ اختیار یا کسی اہم آئینی عہدے کی مدتِ ملازمت کے تعین کا ہو، تو وہی ایوان دن رات ایک کر دیتے ہیں۔ عوامی فلاح کے بل کے لیے مہینوں بلکہ سالوں کی تاخیر روا رکھی جاتی ہے، مگر ایسی ترامیم کے لیے چند دن بھی بہت زیادہ سمجھے جاتے ہیں۔
ہر حکومت چاہتی ہے کہ آئین کو اپنے حق میں ڈھال کر اپنی سیاسی پوزیشن مضبوط کرے۔ لیکن یہ بھول جاتی ہے کہ عوامی تائید کے بغیر کوئی آئین، کوئی ترمیم دیرپا نہیں ہو سکتی۔ جب عوام اپنے آپ کو ریاستی فیصلوں سے الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں تو یہی احساسِ محرومی انتشار اور بے یقینی کو جنم دیتا ہے۔ ستائسویں ترمیم کے تناظر میں ایک بنیادی سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر عوام کے لیے کچھ نہیں رکھا گیا تو پھر یہ ترمیم آخر کیوں اور کس کے لیے کی جا رہی ہے؟ یا پھر آئندہ انتخابات کے پیشِ نظر کچھ قوتوں کو مضبوط اور کچھ کو کمزور کرنے کی حکمتِ عملی؟ عوام کو جواب درکار ہے، کیونکہ یہ آئین انہی کے نام پر بنا تھا اور انہی کے لیے ہونا چاہیے۔
ہماری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب تک آئین کو عوامی امنگوں کے مطابق نہیں ڈھالا گیا، ملک میں استحکام پیدا نہیں ہوا۔بظاہر 27ویں آئینی ترمیم بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو عوام سے زیادہ اشرافیہ کے لیے سودمند دکھائی دیتی ہے۔ اگر واقعی حکومت عوام کا اعتماد حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ آئینی ترامیم سے قبل ان پر کھلی عوامی مشاورت کی جائے۔ مسودے کو منظر عام پر لایا جائے، ماہرینِ قانون، سول سوسائٹی اور عام شہریوں کی رائے شامل کی جائے۔ تبھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ آئین میں ہونے والی تبدیلی عوام کے لیے ہے، نہ کہ چند مخصوص طبقات کے لیے۔
آخر میں یہی کہنا بجا ہوگا کہ آئین محض چند صفحات پر لکھا ہوا متن نہیں بلکہ ایک زندہ معاہدہ ہے۔ اگر اس معاہدے میں عوام کو بار بار نظر انداز کیا گیا تو آئینی بالادستی کا تصور محض نعرہ بن کر رہ جائے گا۔
واپس کریں