دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
صوبائی وزیر قانون بطور امیدوار بار کونسل
محمد ریاض ایڈووکیٹ
محمد ریاض ایڈووکیٹ
پاکستان بھر میں یکم نومبر کو صوبائی بار کونسلز کے انتخابات منعقد ہونے جارہے ہیں، جن میں وکلاء برادری اپنے نمائندوں کو پانچ سال کے لیے منتخب کرے گی۔ یہ انتخابات پاکستان لیگل پریکٹیشنر اینڈ بار کونسل ایکٹ 1973ء اور پاکستان لیگل پریکٹیشنر اینڈ بار کونسل رولز 1976ء کے تحت منعقد ہوتے ہیں، تاہم اس بار سندھ بار کونسل کے انتخابات میں ایک ایسا انوکھا اور غیر معمولی واقعہ پیش آیا ہے، جس نے وکلاء برادری سمیت سیاسی و قانونی حلقوں میں حیرت پیدا کردی ہے۔ صوبائی وزیرِ قانون، پارلیمانی امور، کریمنل پروسیکیوشن اور داخلہ جناب ضیاء الحسن لنجار جو پیشے کے لحاظ سے وکیل بھی ہیں، سندھ بار کونسل کی (شہید بے نظیر آباد) نواب شاہ سیٹ سے امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ موصوف صوبائی کابینہ کے طاقتور ترین وزراء میں شمار ہوتے ہیں۔ وزیر موصوف کی اس انتخابی مہم جوئی کے برخلاف سندھ ہائیکورٹ میں دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ ہے تاہم تادم تحریر یہ فیصلہ نہیں سنایا گیا۔ یاد رہے ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بطور ریٹرننگ آفیسر موصوف کے کاغذات نامزدگی پر اعتراضات مسترد کردیئے تھے۔
یاد رہے پاکستان لیگل پریکٹیشنر اینڈ بار کونسل ایکٹ، 1974 کے سیکشن 108-او، جس میں درج ہے کہ اگر کوئی وکیل کسی دوسرے شعبے، کاروبار ، خدمت یا پیشے میں شامل ہونا چاہے تو بار کونسل سے اپنا رول سرٹیفکیٹ کو معطل کروانا ہوتا ہے ، اور جب وکالت کے شعبہ میں واپس آنا ہو تو وکیل بار کونسل کو درخواست دیکر اپنا رول سرٹیفکیٹ واپس لے سکتا ہے، جیسا کہ ماضی میں فروغ نسیم ایڈووکیٹ نے وزارت چھوڑ کر بار کونسل میں رول آف سرٹیفکیٹ بحال کروانے کی درخواست دی تھی تو انکا لائسنس بحال ہوا پھر انہوں نے جنرل باجوہ عہدہ توسیع مقدمہ میں سپریم کورٹ میں حکومت وقت کی جانب سے وکالت کی تھی۔ کیا صوبائی وزیرقانون نے وزارت سنبھالنے سے پہلے صوبائی بار کونسل میں اپنا رول سرٹیفکیٹ معطل کروایا تھا اگر نہیں تو وکیل صاحب نے قانون کے مطابق ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے، ایسی صورت میں تو انکا نام رول آف سرٹیفکیٹ سے نکالا جاسکتا ہے اور اگر بالفرض انہوں نے معطل کروایا تھا تو پھر بار کونسل انتخاب میں حصہ لینے کے لئے اپنی وزارت چھوڑ کر فروغ نسیم کی طرح بار کونسل سے اپنا رول آف سرٹیفکیٹ بحال کروایا ہے؟ چونکہ قوانین کی حتمی تشریح صرف عدلیہ کا دائرہ اختیار ہے، اسلئے موصوف کے انتخاب لڑنے یا نہ لڑنے کی بابت عدالت کا حتمی فیصلہ ہی تمام فریقین کے لئے قابل قبول ہوگا۔ بالفرض عدالت موصوف کو انتخابات کے لئے اہل یا نااہل قرار دے تواہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک حاضر سروس وزیر کے لیے وکلاء کی نمائندہ تنظیم کے انتخابات میں حصہ لینا اخلاقی، انتظامی اور سیاسی لحاظ سے درست اقدام ہے؟ کیا یہ اقدام صریحا مفادات کے تصادم کے طور پر سامنے نہیں آئے گا؟ کیا انہیں اپنی وزارتوں سے مستعفی ہو کر غیر جانبدار حیثیت میں انتخابی مہم نہیں چلانی چاہیے تھی؟
قوانین کے تابع سندھ بار کونسل کے انتخابات کی نگرانی ایڈووکیٹ جنرل سندھ بطور ریٹرننگ آفیسر کرتے ہیں ۔گویا دنیا کی تاریخ میں یہ پہلی مثال ہو کہ وزارتِ قانون کے سرکاری اہلکار اپنے وزیر کی بطور امیدوار بار کونسل انتخابی انتظامات کی نگرانی پر معمور ہونگے۔ پھر یہ سوال اور زیادہ اہم ہوجاتا ہے کہ کیا یہ انتخاب واقعی غیر جانبدارانہ اور شفاف طریقے سے منعقد ہوسکے گا؟ کیا وزارتِ قانون اور وزارتِ داخلہ جن دونوں کے سربراہ یہی وزیر ہیں اس عمل سے خود کو حقیقی معنوں میں الگ رکھ سکیں گی؟
یہ بات عقل و منطق سے بالاتر لگتی ہے کہ ایک ایسا وزیر، جس کے پاس پہلے ہی طاقت، اثر و رسوخ اور اقتدار کیساتھ ساتھ لاتعداد اختیارات ہیں، وہ محض ایک صوبائی بار کونسل کی سیٹ کے لیے خود کو امیدوار کے طور پر پیش کرے۔ آخر ایک رکنِ صوبائی اسمبلی اور متعدد وزارتوں کے حامل شخص کو صوبائی بار کونسل کی نشست جیتنے کی کیا ضرورت آن پڑی؟ کیا انہیں اپنے اثر و رسوخ میں کسی کمی کا احساس ہے، یا پھر یہ محض ایک علامتی قدم ہے تاکہ وکلاء برادری کے اندر سیاسی اثر کو مزید مضبوط کیا جا سکے؟
اپنے گزشتہ کالم "بار کونسل کو سیاسی جماعتوں سے بچانا ہے" میں نے یہ عرض کیا تھا کہ بار کونسلز کو سیاسی اثر و رسوخ سے پاک رکھنا انتہائی ضروری ہے، یہاں تو گویا گنگا الٹی بہہ رہی ہے کہ خود وزیر قانون بار کونسل انتخابی میدان میں اتر آئے ہیں۔
اگر وزیر موصوف یہ انتخاب جیت بھی جاتے ہیں تو کیا وہ اپنی وزارتوں سے استعفیٰ دے کر صرف بار کونسل کے رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں گے؟ یا پھر یہ محض ایک سیاسی تماشہ ہے تاکہ وکلاء کی صفوں میں پارٹی اثر کو گہرا کیا جا سکے؟ اس سوال کا جواب وقت دے گا، مگر یہ صورتحال بہرحال ایک خطرناک نظیر قائم کرسکتی ہے۔
یہ مسئلہ محض ایک شخص یا ایک نشست تک محدود نہیں۔ یہ دراصل ادارہ جاتی کمزوری اور قانونی خلا کی نشاندہی کرتا ہے۔
پاکستان بار کونسل، صوبائی بار کونسلز اور پارلیمینٹ کو اس معاملے کا فوری اور سنجیدہ نوٹس لینا چاہیے۔ اگر موجودہ قوانین میں کوئی خلا ہے تو فوری طور پر قانون سازی کی ضرورت ہے، تاکہ مستقبل میں کوئی بھی وزیر یا سرکاری افسر ایسے انتخابات میں حصہ نہ لے، جہاں اس کی سرکاری حیثیت انتخابی شفافیت پر اثر انداز ہوسکے۔
ایک قانون کے طالب علم کے طور پر میرا ماننا ہے کہ قانون، اخلاقیات اور جمہوری اصول تینوں کا تقاضا یہی ہے کہ طاقتور افراد خود کو ان معاملات سے الگ رکھیں، جن سے شفافیت اور عدل پر سوال اٹھ سکتا ہے۔ بصورت دیگر عوام اور وکلاء برادری دونوں یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ ہمارے ادارے محض طاقتوروں کے کھیل کا میدان بن چکے ہیں جہاں قانون نہیں، عہدہ جیتتا ہے۔
واپس کریں