محمد ریاض ایڈووکیٹ
وکلاء برادری کو ہمیشہ معاشرے میں شعور و انصاف کی علامت سمجھا گیا ہے۔ بار ایسوسی ایشنز اور بار کونسلز کے انتخابات کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ وکلاء اپنے نمائندے خود چنیں جو ان کے پیشہ ورانہ مسائل حل کریں، قانون کی بالادستی کے لیے جدوجہد کریں اور بار و بینچ کے درمیان بہترین تعلقات کو فروغ دیں۔ یہی وجہ ہے کہ ضلعی و تحصیل بار ایسوسی ایشنز کے سالانہ اور صوبائی بار کونسلز کے پانچ سالہ انتخابات کو قانونی و آئینی درجہ حاصل ہے۔
لیکن افسوس کہ گزشتہ کچھ برسوں سے یہ انتخابات اپنی اصل روح کھوتے دیکھائی دیتے ہیں۔ اب یہ خالصتاً وکلاء کے انتخابات کم اور سیاسی جماعتوں کے ''منی انتخابات'' زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں اکثر اپنے حامی امیدواروں کی فہرستیں باقاعدہ نوٹیفکیشن کے ذریعے جاری کرتی ہیں۔ ان امیدواروں کو پارٹی پرچم تلے مہم چلانے کے لیے وسائل فراہم کیے جاتے ہیں اور کامیابی کی صورت میں سیاسی جماعتیں فخر سے اعلان کرتی ہیں کہ ''بار الیکشن میں بھی ہم جیت گئے!''
سوال یہ ہے کہ کیا بار کونسلز کسی سیاسی جماعت کا ذیلی ونگ ہیں؟ کیا ان اداروں کا مقصد پارٹی پالیسیوں کی ترجمانی ہے؟ یقیناً نہیں۔
چند دن قبل سوشل میڈیا پر پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل پیج پر ایک ویڈیو گردش کر رہی تھی جس میں انتظار حسین پنجوتھہ ایڈووکیٹ لاہور ڈویژن کی پنجاب بار کونسل کی نشستوں پر امیدواروں سے حلف لے رہے تھے۔ یہ حلف آئین و قانون کی عملداری سے زیادہ پارٹی وفاداری کا لگ رہا تھا۔ یہاں تک کہ امیدواروں سے بانی پی ٹی آئی عمران احمد خان نیازی سے وفاداری کا عہد بھی لیا گیا۔
یہ منظر نہ صرف مضحکہ خیز بلکہ بار کونسل کے تقدس کے منافی بھی ہے۔ بار کونسلز کسی سیاسی جماعت کی شاخ نہیں بلکہ یہ خالصتاً وکلاء کے نمائندہ ادارے ہیں جو کسی ایک سیاسی نظریے کے نہیں بلکہ آئین، انصاف اور قانون کی پاسداری کے ضامن ہیں۔
یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ سیاسی وابستگی رکھنے والے وکلاء کو کلیدی عہدوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔ اٹارنی جنرل آفس، ایڈووکیٹ جنرل آفس، پراسیکیوٹر جنرل آفس، سب جگہوں پر سیاسی بنیادوں پر تقرریاں معمول بن چکی ہیں۔ کسی وکیل کا ''قابل'' ہونا نہیں بلکہ کسی پارٹی سے ''وابستہ'' ہونا ہی ترقی کا معیار بن گیا ہے۔ اس رجحان نے وکلاء برادری میں میرٹ، پیشہ ورانہ وقار اور آزادانہ سوچ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
قانونی طور پر کوئی وکیل سیاسی وابستگی رکھ سکتا ہے، اس پر کوئی قدغن نہیں۔ تاہم جب یہی وابستگی ادارہ جاتی عمل پر غالب آ جائے تو یہ بار کے بنیادی مقاصد کو نقصان پہنچاتی ہے۔ تجربہ گواہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے قریب سمجھے جانے والے وکلاء جب اعلیٰ آئینی عہدوں تک پہنچتے ہیں تو وہ آئین و قانون کی بجائے پارٹی لائن کے محافظ بن جاتے ہیں۔ پھر ان کے فیصلے پیشہ ورانہ غیر جانب داری کے بجائے سیاسی وفاداری کے آئینے میں جھلکنے لگتے ہیں۔ آج حکومتی ایوانوں اور وزارت قانون میں براجمان وزراء اور سرکاری وکلاء کی زیادہ تر تعداد مسلم لیگ ن سے وابستہ افراد پر مشتمل دیکھائی دیتی ہے، جو کبھی زمانہ حزبِ اختلاف میں مسلم لیگ ن کی لیڈرشپ کے ذاتی مقدمات میں عدالتوں میں پیش ہوا کرتے تھے۔ ماضی قریب میں پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف کے حامی وکلاء انہی سرکاری ایوانوں میں براجمان دیکھائی دیتے تھے۔
میں بحیثیت ایک وکیل یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہوں کہ اگر کوئی امیدوار پہلے ہی کسی سیاسی جماعت کے قائد سے وفاداری کا حلف اٹھا چکا ہے تو میں کیوں اُسے پنجاب بار کونسل کا نمائندہ منتخب کروں؟ کیا ہمیں بار کونسل کو بنی گالا یا رائے ونڈ محل یا بلاول ہاؤس کا توسیعی دفتر بنانا ہے؟ اگر نہیں، تو پھر ہمیں اس روایت کو ختم کرنا ہوگا جو بار کے تقدس کو سیاست کی بھینٹ چڑھا رہی ہے۔
بار کے انتخابات ہمیشہ وکلاء کے اتحاد، انصاف کے فروغ اور ادارہ جاتی خود مختاری کی علامت رہے ہیں۔ اگر ان میں سیاسی رنگ غالب آ گیا تو وہ دن دور نہیں جب بار کونسلز بھی سیاسی اکھاڑوں میں تبدیل ہو جائیں گی، جہاں دلیل کی جگہ نعرے اور قانون کی جگہ وفاداری فیصلے کرے گی۔ یہ بار اور بینچ دونوں کے لیے تباہ کن ہوگا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ وکلاء برادری خود احتسابی کا مظاہرہ کرے۔ سیاسی وابستگیوں کو ذاتی سطح تک محدود رکھا جائے، مگر بار کے انتخابات اور ادارہ جاتی فیصلوں کو اس سے پاک رکھا جائے۔ وکلاء کو یہ سمجھنا ہوگا کہ بار کونسلز کا وجود سیاسی مفادات کے لیے نہیں بلکہ آئین، قانون اور انصاف کی سر بلندی کے لیے ہے۔
آخر میں میں اپنے ساتھی وکلاء سے گزارش کروں گا کہ ہم نے ہمیشہ قانون کی سربلندی کا عزم کیا ہے، تو پھر اپنے ہی ادارے کو سیاسی وابستگیوں سے آلودہ کیوں کریں؟ بار کونسلز کو رائے ونڈ، بنی گالہ یا زرداری ہاؤس کے سیاسی اثر سے آزاد رکھنا ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ یہی اقدام وکالت کے وقار، عدلیہ کی آزادی اور انصاف کی غیر جانب داری کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے۔ اگر ہم آج یہ قدم نہ اٹھا سکے تو آنے والی نسلیں شاید ایک غیر سیاسی، آزاد اور باوقار بار کی تاریخ صرف کتابوں میں ہی پڑھ سکیں گی۔
واپس کریں