محمد ریاض ایڈووکیٹ
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا شمار اُن چند ممالک میں ہوتا ہے جن کی عوام دنیا بھر میں بسنے والے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کرتی آئی ہے۔ پاکستانی قوم ایک دردِ دل رکھنے والی، حساس اور بیدار ضمیر قوم ہے، جو امتِ مسلمہ کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکتوبر 2023 سے اکتوبر 2025 تک جب غزہ کے مظلوم مسلمانوں پر اسرائیل نے ظلم کے پہاڑ توڑ دیے، تو پاکستانی عوام اور حکام نے ہر فورم پر ان کے حق میں آواز اُٹھائی۔ حکومتِ پاکستان نے عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر غزہ میں امن کے لیے کردار ادا کرنے کی کوشش کی، جبکہ سیاسی و مذہبی جماعتوں نے جلسے، جلوس، مارچ، ریلیاں اور دھرنے منعقد کیے۔ حتیٰ کہ جن سے یہ سب ممکن نہیں ہوسکا، انہوں نے کم از کم بیانات اور پریس ریلیز کے ذریعے اپنی وابستگی اور ہمدردی کا اظہار کیا۔ یہ طرزِ عمل یقیناً قابلِ ستائش ہے، مگر اس کے ساتھ ایک سوال جنم لیتا ہے، کیا ظلم صرف وہی ہوتا ہے جو کسی غیر مسلم کے ہاتھوں مسلمانوں پر ہو؟ کیا وہ ظلم، جو ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر کرے، کسی لحاظ سے کم سنگین ہے؟
یہ سوال ہمیں لے آتا ہے اُس بدقسمت مسلمان ملک سوڈان کی جانب، گزشتہ اڑھائی برسوں سے سوڈان ایک خوفناک خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اب تک ایک لاکھ سے زائد مسلمان اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے ہاتھوں جاں بحق اور ایک کروڑ سے زائد لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ لاکھوں عورتیں اور بچے بھوک، خوف اور بیماریوں کے عذاب میں مبتلا ہیں۔ مگر حیرت انگیز طور پر اس دلخراش انسانی المیے پر مجھ سمیت پاکستانیوں کی اکثریت، خصوصا پاکستان کی مذہبی و سیاسی قیادت اور حکمرانوں کی زبانیں بند ہیں۔
غزہ، فلسطین کے لیے ہمارے جذبات عروج پر ہوتے ہیں، ہونا بھی چاہیے، کیونکہ وہاں غیر مسلم طاقت مسلمانوں پر ظلم ڈھا رہی ہے۔ مگر سوڈان، شام، یمن ایسے مسلم ممالک میں مظلوم مسلمانوں کے لیے ہمارے دل کیوں نہیں تڑپتے؟ کیا ان کے قتل عام کی خبر ہمارے ضمیر کو نہیں جھنجھوڑتی؟ کیا وہ امتِ مسلمہ کا حصہ نہیں؟ یا زبانیں اس لئے بند رکھتے ہیں کہ ان واقعات میں خود بڑی اسلامی طاقتیں ملوث ہوتی ہیں اور انکے خلاف بات کرتے ہوئے شرم یا ڈر محسوس ہوتا ہے۔
یہ تضاد صرف سوڈان تک محدود نہیں۔ ہم نے یہی رویہ یمن، شام اور افغانستان کے معاملات میں بھی دیکھا۔ جب مسلمان، مسلمانوں پر ظلم ڈھاتے ہیں، تو ہم خاموش تماشائی بن جاتے ہیں۔ یمن میں جاری خانہ جنگی ہو یا شام کا المیہ، ہماری جماعتیں کہیں دکھائی نہیں دیتیں۔ اور جب افغانستان کی سرزمین سے ہمارے اپنے فوجی جوانوں کو شہید کیا جاتا ہے، تب بھی ان کی جانب سے کوئی احتجاج، کوئی تنقیدی بیان یا پریس ریلیز سامنے نہیں آتی۔ گویا ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے کا پیمانہ ہم نے“ظالم کے مذہب”کے مطابق طے کر لیا ہے۔
اگر ظالم غیر مسلم ہے تو پورا ملک احتجاج پر اُتر آتا ہے، لیکن اگر ظالم مسلمان ہے تو خاموشی چھا جاتی ہے۔ کیا یہ رویہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے؟ کیا اسلام نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ انصاف صرف غیر مسلم کے خلاف کیا جائے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ '' اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔'' جب صحابہ کرامؓ نے پوچھا: ''یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ظالم کی مدد کیسے کی جائے؟'' تو فرمایا: ''اسے ظلم سے روک کر۔'' لیکن افسوس کہ ہم نے اس سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو فراموش کر دیا۔ ہم صرف اس وقت بولتے ہیں جب دشمن غیر مسلم ہو، مگر جب ظالم اپنا ہی بھائی ہو، تو آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہم کبوتر کی طرح خطرہ دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں، یہ سوچ کر کہ شاید مصیبت خود ہی گزر جائے۔
سوڈان میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ صرف سیاسی تنازع نہیں بلکہ انسانیت کی تباہی ہے۔ معصوم بچے میدانِ جنگ میں یتیم ہو رہے ہیں، مگر امتِ مسلمہ کی قیادت، خاص طور پر او آئی سی، مکمل طور پر خاموش ہے۔ نہ کوئی متفقہ بیان، نہ امن کی کوشش، نہ ثالثی کا اقدام۔ مسلم ممالک کے حکمران اپنے اپنے مفادات میں الجھے ہوئے ہیں۔ یہ خاموشی اور بے حسی ہمارے اجتماعی زوال کی علامت ہے۔ ہم امت کے اتحاد کی بات تو کرتے ہیں، مگر جب امتحان آتا ہے تو ہمارے الفاظ اعمال میں ڈھل نہیں پاتے۔ غزہ کے لیے آنسو بہانے والے سوڈان کے لیے خاموش کیوں ہیں؟ اگر ہم واقعی امتِ مسلمہ کے درد کو محسوس کرتے ہیں، تو ہمیں ہر مظلوم کے لیے آواز اُٹھانی چاہیے، خواہ ظالم کوئی بھی ہو۔
پاکستانی عوام، علماء اور مذہبی رہنما اگر واقعی امت کے خیرخواہ ہیں تو انہیں اپنی ترجیحات پر نظرِ ثانی کرنا ہوگی۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ ظلم کے خلاف آواز اُٹھانا ایمان کا تقاضا ہے، ظالم کی شناخت کا نہیں۔ سوڈان کے مظلوم ہمیں پکار رہے ہیں۔ ان کے آنسو، ان کے ملبے تلے دبے خواب، ان کے یتیم بچوں کی فریاد ہم سے سوال کر رہی ہے۔ کیا ہمارا دردِ مسلم صرف غزہ تک محدود ہے؟ کیا سوڈان کے مسلمان مظلوم نہیں؟
واپس کریں