دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کنفیوژ ذہنیں ۔طاہر سواتی
طاہر سواتی
طاہر سواتی
پہلا :میجر رینک کا وہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ایک ملٹری ہسپتال میں سینئر میڈیکل آفیسر کے عہدے پر تعینات تھا۔اوپر سے ماشااللہ پکا تبلیغی ،سوچی داڑھی اور پینٹ ہر وقت ٹخنوں سے اوپر ۔مریض کو نسخہ لکھنے کے بعد اس مشورہ دیتا کہ میں نے دوائی لکھ دی ہے لیکن اس سے آپ کا ٹھیک ہونا مشکل ہے ۔ اس کے بعد اسی نسخے والے کاغذ کی دوسری طرف کچھ جڑی بوٹیوں کے نام لکھ کر اس کی ترکیب سمجھاتا کہ یہ دیسی دائی انگیریزی سے زیادہ کارآمد ہے لیکن آپ کو آصل شفا اس دم شریف سے ملے گی جو میں آخر میں لکھ رہاہوں ۔ یار لوگوں میں وہ ڈاکٹر پیرُ حکیم کے نام سے مشہور تھے۔
دوسرا:
ہمارا وہ پاکستانی دوست بھی باریشُ، پابند صوم و صلاۂ اور ماتھے پر سجدے کا نشان لیکر گھومتا ۔
اس کا بڑا بیٹا ایک خلیجی ملک کے سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر تھا۔
کرونا کے زمانے میں حکومت نے اپنے سرکاری ٹی وی اور ریڈیو پر عوام الناس میں شعور بیدار کرنے کے لئے مخلتف زبانوں میںُ پروگرامات کا ایک سلسہ شروع کیا ہوا تھا۔ جس میں کرونا کی علامت ، احتیاطی تدابیر اور علاج کے بارے میں آگاہی دی جاتی تھی ۔
اس سلسلے میں اس کے بیٹے کا اردو زبان میں ایک گھنٹے کا پروگرام نشر ہوا ۔ اس نے خوشی سے مجھے اس پروگرامُ کا لنک واٹس اپ کیا اور ساتھ تلقین کی کہ اسے ذیادہ سے ذیادہ شئیر کردیں۔ دو دن بعد اس نے حسب معمول مجھے کرونا کے بارے میں یوٹیوبرز کی ایک سازشی تھیوری واٹس ایپ کردی۔ میں نے پوچھا حضرت میں اب اس کو سچ مانوں یا دو دن قبل آپ کے بیٹے والا بھاشن ،
کہتا ہے بھائی آپ چیزوں کو اتنا سیریس کیوں لیتے ہیں ، گزارش کی اس لئے سیریس لیتا ہوں کہ آپ جیسے ایمان والے نے بھیجی ہے ، آپ بھی آئندہ جس کو سیریس لیتے ہیں وہ مجھے سینڈ کیا کریں ، فری ڈیٹا کا یہ مطلب نہیں کہ جو ملا آگے فارورڈ کردیا ، ناراض ہو گئے ۔
اور تیسری خبر تازہ ترین ہے جس کے مطابق ڈاکٹر فرحان رضوی اسسٹنٹ پروفیسر کارڈیک سرجری کو پولیس نے اپنے بچوں کو پولیو قطرے پلانے سے انکار کرنے پر گرفتار لیا ۔ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک پولیو کے قطرے یہود و نصاریٰ کی بہت بڑی سازش ہے۔
اسی طرح یورپ و برطانیہ میںُ طب کے پیشے سے وابسط الباکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اپنے بچوں کو ویکسین لگوانے کے خلاف ہیں ۔
ڈاکٹروں کی چند مثالیں اس لئے دی کہ یہ ہمارے معاشرے کا سب سے لائق اور جینئیس طبقہ شمار کیا جاتا ہے۔ ایف ایس سی میں سب سے لائق لڑکے میڈیکل میں سلیکٹ ہوتے ہیں ۔ نالائق تو بی اے ایل ایل بی کرکے وکیل اور پھر جج بنتے ہیں یا جرنیل بن جاتے ہیں ۔
جب سب سے جینئس طبقے کا یہ حال ہے تو باقی قوم کا آپ خود تصور کرلیں ۔
آخر مسئلہ کیا ہے؟
مسئلہ دیسی علاج یا دم درود سے انکار کا نہیں ۔
اصل مسئلہ کنفیوژ ذہنوں کا ہے ۔
مخصوص مذہبی سوچ کی وجہ سے ہم شک کی زندگی گزار رہے ہیں ، اپنی کوتاہیوں کو یہود و نصاریٰ کے سازشوں میں چھپاتے ہیں ۔
ہم جو کچھ کرررہے ہیں اس پر یقین نہیں رکھتے۔
اور جس پر یقین کامل ہے اس پر عمل درآمد کے لئے تیار نہیں ۔
اگر ایک ڈاکٹر یہ سمجھتا ہے کہ حکیمی طریقہ علاج انگریزی سے بہتر ہے تو وہ ڈاکٹری کا پیشہ چھوڑ کر حکمت کیوں اختیار نہیں کرتا ۔ نیم حکیم بن کر لوگوں کی زندگیوں سے کیوں کھیلتا ہے۔
اور اگر دم درود پر یقین ہے تو تصوف میں کمال حاصل کرکے پیر چف چف کیوں نہیں بنتا۔
یہاں جنرل باجوہ کشمیر ہار کر معیشت اور سیاست پر ڈاکٹرائین پیش کرتا ہے ۔
ثاقب نثار اینڈ کو عدلیہ کو ۱۳۸ نمبر پر پہنچا کر ڈیم بناتے ہیں یا بہبود آبادی پر لیکچر دیتے ہیں ۔
اپنے سیاسی مقاصد کے لئے اسلام کا قلعہ ، اسلامی نظام حکومت اور ریاست مدینہ جیسا چورن بیچنا تو باباجی اور ضیاءسے لیکر نوسر باز تک ہر ایک کا شغل رہا ہے۔
کنفیوژ قومیں کبھی بھی دنیا میں آگے نہیں بڑھ سکتی ۔
ترقی کا پہلا زینہ یقین محکم ہے۔
واپس کریں