محمد ریاض ایڈووکیٹ
حکومتِ پنجاب کی جانب سے ”پنجاب کائٹ فلائنگ آرڈیننس 2025“ جاری کر دیا گیا ہے۔ آرڈیننس جاری ہونے کے بعد خونی کھیل یعنی موت کی واپسی کے شدید خطرات منڈلانے لگے ہیں۔ یہ فیصلہ نہ صرف عوام کے لیے غیر متوقع ثابت ہوا بلکہ قانونی اور انتظامی حلقوں میں بھی ایک نئی بحث نے جنم لے لیا۔ ابھی چند دن پہلے پتنگ بازی کے خلاف سیف سٹی اتھارٹی کی جانب سے ڈراؤن ٹیکنالوجی کے ذریعہ پتنگ بازوں کی گرفتاریوں کی ویڈیوز فخریہ انداز میں شئیر کی جارہی تھیں۔ آئینِ پاکستان کی رو سے آرڈیننس اُس وقت جاری کیا جاتا ہے جب قومی یا صوبائی اسمبلی کا اجلاس جاری نہ ہو اور حکومت کسی قانون کو فی الفور نافذ کرنا چاہتی ہو۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایسے کون سے ہنگامی حالات پیدا ہو گئے تھے کہ اسمبلی کے آئندہ اجلاس تک کا انتظار نہ کیا گیا۔ ایک طرف تو حکومت پنجاب عوام کی سلامتی کی بابت ٹریفک قوانین و قواعد میں سخت ترامیم لیکر آرہی ہے، گرفتاریوں اور بھاری جرمانوں کے اعلانات کے علاوہ حقیقی عملدرآمد شروع ہوچکا، جبکہ دوسری طرف اسی لمحے ایک ایسے خونی کھیل کی مشروط اجازت دی جارہی ہے جو برسہا برس قیمتی جانیں نگلتا آیا ہے۔
یاد رہے سال 2001 میں پنجاب حکومت نے پتنگ بازی کے بڑھتے ہوئے جانی و مالی نقصانات کے باعث ”پنجاب میں پتنگ بازی کی ممانعت“ کے نام سے باقاعدہ قانون نافذ کیا تھا۔ اس قانون میں وقتاً فوقتاً ترامیم کی جاتی رہیں تاکہ اس خونی کھیل کے اثرات کو کم سے کم کیا جا سکے۔ آسمان پر لہراتی پتنگیں سطحِ زمین پر ماؤں کے لالوں کے بے رحمی سے گلے کاٹتی رہیں۔ ہر ذی شعور کے نزدیک یہ کھیل محض تفریح نہیں رہا بلکہ انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بن چکا ہے۔
حیران کن امر یہ ہے کہ موجودہ حکومت، جس نے رواں برس جنوری 2025 میں اسی قانون میں مزید سختیاں شامل کرتے ہوئے بھاری جرمانے اور قید کی سزائیں بڑھائیں، اب اچانک اسی کھیل کو مشروط اجازت دینے کے لیے بے تاب دکھائی دیتی ہے۔ کیا وہ حالات یکایک بدل گئے جنہوں نے گزشتہ دو دہائیوں میں پنجاب حکومتوں کو سخت پابندیوں پر مجبور رکھا؟ کیا کوئی ایسا انتظامی معجزہ رونما ہو گیا ہے جس نے پتنگ بازی کے تمام خطرات کو جڑ سے ختم کر دیا ہے؟ اگر نہیں، تو پھر یہ نرمی آخر کس منطق کے تحت کی جا رہی ہے؟
سال 2001 سے آج تک پنجاب پولیس کی سختیاں، چھاپے، گرفتاریاں، تحویل میں لی گئیں ڈوریں اور پتنگیں، سب کے باوجود یہ کھیل چوری چھپے جاری رہا، کئی نوجوان گلے کٹنے سے موت کے منہ میں چلے گئے، کئی سڑکوں پر حادثات کا شکار ہوئے، کہیں چھتوں سے گرنے کے واقعات ہوئے تو کہیں ڈور نے موٹر سائیکل سواروں کو زندگی سے محروم کر دیا۔ کتنی ہی ماؤں نے اپنے جگر گوشے کھوئے، کتنی عورتیں بیوہ ہوئیں، اور کتنے گھر مستقل غم کا نشان بن گئے۔ یہ سب کچھ ہماری اجتماعی یادداشت کا حصہ ہے، اور اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پتنگ بازی کے نتائج ہمیشہ خوفناک ہی رہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی حکومت کے پاس اتنی استعداد ہے کہ وہ آرڈیننس میں شامل شرائط پر سوفیصد عملدرآمد کروا سکے؟ قوانین بنانا آسان سہی، مگر ان پر عملدرآمد کرنا ہمیشہ سے سب سے بڑی آزمائش رہا ہے۔ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ حکومت اور اسکے قانون نافذ کرنے والے ادارے، دونوں اس کھیل کو مکمل طور پر قابو کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ دھاتی ڈور بنانے والے، بیچنے والے اور استعمال کرنے والے تمام عناصر قانون کی آنکھ میں دھول جھونکتے رہے۔ ایسے میں یہ توقعات رکھنا کہ اب کسی بھی طرح کا نقصان نہیں ہوگا، حقیقت سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے۔
بطور قانون کے طالب علم میں پورے اعتماد سے کہتا ہوں کہ اگر اس مشروط اجازت نامے کے بعد دوبارہ جانی یا مالی نقصان ہوا تو اس کا براہِ راست ذمہ دار صرف حکومت پنجاب ہی ہوگی، خصوصاً وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف صاحبہ جنہوں نے اس آرڈیننس کی منظوری دی۔ قانون صرف کاغذ پر موجود الفاظ نہیں ہوتے بلکہ وہ فیصلے ہوتے ہیں جن کا اثر براہِ راست عوام کی زندگیوں پر پڑتا ہے۔ ایسے میں حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ کسی بھی فیصلے سے پہلے اس کے ممکنہ نتائج پر مکمل نظر ڈالے۔
میری وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ سے گزارش ہے کہ اس آرڈیننس کو فی الفور واپس لیا جائے۔ خدارا، تفریح کے نام پر کسی بھی قیمتی جان کی قربانی نہ ہونے دیں۔ آپ عوام کے جان و مال کی حفاظت کو اولین ترجیح دیں۔ اگر خدانخواستہ اس مشروط اجازت کے بعد کوئی جان لیوا حادثہ پیش آتا ہے تو اس کا بوجھ حکومت پنجاب کے دامن پر ہی آئے گا۔
یہاں یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ قرآنِ کریم کی سورۃ المائدہ کی آیت 32 میں ارشاد ہے:
”جس نے کسی ایک انسان کو ناحق قتل کیا، گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔ اور جس نے ایک انسان کی جان بچائی، گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔“
اگر حکومت کا کوئی فیصلہ ایسی سرگرمی کو فروغ دیتا ہے جو انسانی جان کے ضیاع کا سبب بن سکتا ہے تو یہ نہ صرف انتظامی غفلت بلکہ اخلاقی و دینی ذمہ داری سے چشم پوشی کے مترادف ہے۔
پتنگ، ڈور، موسم بہار اور تفریح اپنی جگہ مگر انسانی جان ان سب سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ ریاست کا پہلا فرض شہریوں کی جان کی حفاظت ہے، نہ کہ ایسا ماحول پیدا کرنا جو انہیں مزید خطرات میں دھکیل دے۔
واپس کریں